ETV Bharat / bharat

'کورونا وائرس میں دُرست اطلاعات فراہم کرنا ضروری'

سینئر صحافی سمیتا شرما کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں دہلی میں تعینات یوروپین یونین کے سفیر اگو استوٹو نے کہا کہ کووَڈ 19کے لئے انسداد کے لئے ویکسین بنانا ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وباء کے خلاف مشترکہ جدوجہد کے حوالے سے درست اعداد و شمار فراہم کرنا اور شفافیت کا مظاہرہ کرنا بھی وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ بھارت اور یورپین یونین ایک دوسرے کے اُن شہریوں کے ویزا میں توسیع کررہی ہے ، جو فی الوقت اپنے اپنے ممالک واپس نہیں جاسکتے ہیں۔پیش ہیں انٹرویو کے چند اہم اقتباسات:

دہلی میں تعینات یوروپین یونین کے سفیر اگو استوٹو
دہلی میں تعینات یوروپین یونین کے سفیر اگو استوٹو
author img

By

Published : Apr 10, 2020, 7:15 PM IST

کورونا وائرس کی وباء کے نتیجے میں پیدا شدہ اقتصادی بدحالی سے نمٹنے کے لئے 27ممبرممالک پر مشتمل سیاسی اور معاشی اتحاد یورپی یونین مالی مدد کی فراہمی کی تجویز پر غور کررہا ہے۔ اٹلی ، جہاں اب تک چین سے بھی زیادہ اموات ہوچکی ہیں ،اس نے بھی یو رپین یونین سے کہا ہے کہ وہ کووِڈ19کے نتیجے میں پیدا شدہ معاشی بحران کے تناظر میں بچاؤ فنڈ کا استعمال کرے۔ نئی دہلی میں تعینات یورپین یونین کے سفیراُگو استوٹو کا ماننا ہے کہ وباء سے نمٹنے کے لئے سخت اقدامات اور لاک ڈاؤن وقت کی ایک اہم ترین ضرورت ہے۔

سوال: یورپین یونین کورونا وائرس کے حوالے سے اس وقت کس درجے کے خطرات سے دوچار ہے؟

جواب : یہ وباء اس وقت پوری دُنیا میں پھیل رہی ہے اور اس سے نمٹنے کے لئے عالمی سطح کی کوششیں درکار ہیں۔ہمیں استقلال کے ساتھ عوامی صحت عامہ کی حفاطت کرنی ہوگی اور مزید اموات روکنے کیلئے یک جٹ ہوکر استقلال کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔اس ضمن میں اس وقت یورپ میں ہم نے کئی اہم اقدامات کئے ہوئے ہیں۔ ہم نے سرحدیں بند کرلی ہیں۔ سائنسی شواہد کے تلقین کے عین مطابق ہم نے لاک ڈاؤن کیا ہے۔ہم نے ’’ کووڈکارڈی نیشن‘‘ بھی قائم کی ہے۔ تمام رکن ممالک نے وہ ضروری اقدامات شروع کرلئے ہیں ، جو اس وقت کئے جانے چاہیں۔ہم نے اس بحران کے نتیجے میں متوقع معاشی نقصانات سے نمٹنے کیلئے بھی اقدامات شروع کئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے وائرس کے پھیلاؤ نتائج سے نمٹنے کے لئے بھی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ ہم اس جنگ کو جیت سکتے ہیں۔ یورپین یونین کے پاس قابل سائنسداں ہیں ۔ ہم نے اس وباء کی تحقیق اور علاج کے لئے پبلک اور پرائیویٹ فنڈنگ کے ذریعے 140ملین یوروز فراہم کئے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم جتنی جلدی ہوسکے ، اس وباء کے تدارک کیلئے ویکسین تلاش کریں ۔اس ضمن میں ہم پوری شفافیت برت رہے ہیں۔یورپین کمیشن اور دیگر کئی ویب سائٹس پر ہم نے اعداد و شمار اور اطلاعات میسر رکھی ہوئی ہیں۔ ہم اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ کھلے اور درست اطلاعات کی فراہمی اس بحران سے نمٹنے میں ضروری ہے۔مقامی اور قومی سطح کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ہم عالمی سطح پر بھی متحد ہوکر کام کریں کیونکہ وباء سرحدوں کا لحاظ نہیں رکھتی ہے۔ہمیں اس وقت کثیر الجہتی میکانزم اپنانے کی ضرورت ہے۔

سوال: وباء پھوٹنے کے بعد بھی یورپین یونین میں سرحدوں کی قید کے بغیربھی لوگوں کی آمد و رفت جاری رہی ۔ اس کے نتیجے میں کتنا خطرہ پیدا ہوگیا ہے؟کیا اب کووڈ 19سے متاثرہ مسافروں کی شناخت ممکن ہوپائے گی ؟

جواب: ہم اس پر کام کررہے ہیں ۔ لاک ڈاؤن کار گر ثابت ہورہا ہے ۔ ہم تمام طرح کے ضروری اقدامات کررہے ہیں۔ ہم عوامی صحت عامہ کے تحفظ کے لئے ہر طرح کے اقدامات کررہے ہیں۔ ہم عالمی ادارہ صحت (WHO)کے مشوروں پر عمل کررہے ہیں۔ ہم صحت سے جڑی تنظیموں کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں اور ہم کئی سخت اقدامات کررہے ہیں۔ کئی ضروری فیصلے لے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم انسانی جذبے کے تحت سماجی اور معاشی معاملات کے حوالے سے بھی اقدامات کررہے ہیں۔فی الوقت عوام کی صحت کو تحفظ فراہم کرانا ہماری اولین ترجیح ہے۔

سوال : بھارت نے یورپین یونین کو بھی سفری پابندی کی فہرست میں شامل کردیا ہے ۔ دوسری جانب جبکہ کئی بھارتی طلبا بھی یورپین یونین کے مختلف شہروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کیا یورپین یونین اور بھارت ایک دوسرے کے شہریوں کے ویزا میں توسیع کررہے ہیں؟

جواب :ہاں ہم ایسا کررہے ہیں۔ انفرادی سطح پر رکن ممالک ایسا کررہے ہیں۔ ہم یورپی یونین کی سطح پر بھی اس مسئلے میں مدد کررہے ہیں۔ہم یہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ ہم سب یکساں طور پر اس مسئلے سے دو چار ہیں۔ہمیں نرم رویہ کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ایسا کرنا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔خواہ یورپی یونین کے لوگ بھارت میں ہوں یا بھارت کے لوگ یورپ میں ہوں ، ہم شہریوں کی مدد کے حوالے سے وسیع اقدمات کررہے ہیں ۔کیونکہ ایسا کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

سوال : کیا آپ کو لگتا ہے کہ سرحدوں کو بند کرنا اس وباء سے نمٹنے کا ایک موثر طریقہ ہے؟ یا پھر سب کو استثنیٰ دینا کوئی حل ہوسکتا ہے؟

جواب:میں کوئی ماہر طب نہیں ہوں ۔ لیکن یورپی یونین سائنسی ماہرین کے مشوروں کے مطابق فیصلے لے رہی ہے۔ہم جو بھی اقدامات کررہے ہیں ، سائنسی شواہد کی روشنی میں کررہے ہیں۔

سوال: اس وباء کے نتیجے میں پیدا شدہ معاشی مشکلات سے نمٹنے کے لئے حکومتوں کو کس طرح کے پیکیجز فراہم کرنے چاہیں؟

جواب :ہم نے تحقیق اور ویکسین کی تلاش کے لئے 140ملین یوروز فراہم کئے ہیں۔ ہم نے عالمی ادارہ صحت ( WHO) کو بھی 400ملین یوروز کی پیشکش کی ہے۔ ہم سب مل کر اس وباء کو قابو کرنے کارگر طریقے تلاش کرسکتے ہیں۔اسی طرح ہم متوقع معاشی بحران، جس کی وجہ سے کئی سماجی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں، اس سے بھی نمٹ سکتے ہیں۔ہم پہلے ہی متعدد اقدامات کرچکے ہیں۔ہم بجٹ میں متوقع معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے کئی رعایات دے رہے ہیں اور استحکام اور معاشی بہتری کے لئے کئی طرح اقدامات کررہے ہیں۔وائرس کو قابو کرنے کیلئے ہر ممکن قدام اٹھا یا جارہا ہے۔صورتحال سے نمٹنے کے لئے جو کچھ بھی ممکن ہو، ہمیں کرنا چاہیے۔ہم نئے اور نرالے حل تلاش کرنے کے لئے تیار ہیں۔

سوال: وزیر اعظم مودی نے G20کو آن لائن سطح پر یک جٹ کرنے کیلئے سارک طرز کی ایک کانفرنسز کرنے کی تجویز دی ہے تاکہ عالمی بحران سے نمٹنے کیلئے کثیر الجہتی اقدامات کئے جاسکیں ۔ آپ اس تجویز کو کیسے دیکھتے ہیں؟

جواب: ایسا کرنا بہت ضروری ہے۔ ہم وزیر اعظم مودی کے اس اقدام کو سراہتے ہیں ۔ ایسا کرنا وقت کی ایک اہم ترین ضرورت تھی۔ماضی میں کبھی بھی کثیر الجہتی اداروں کی اتنی ضرورت نہیں رہی ہے ، جتنی آج ہے۔ہمیں بین الاقوامی تعاون اور یکجہتی کو فروغ دینا ہوگا۔بہتر تال میل کے لئے ہمیں تمام طرح کے میکانزم کو استعمال کرنا ہوگا۔تاکہ ہم اس بحران سے نکل آئیں۔

سوال: اس وقت کئی ممالک میں لاک ڈاؤن جاری ہے ۔ کیا ایسے حالات میں G7کی جانب سے پیش کی گئیں تجاویز G20میں نافذ کی جاسکتی ہیں؟

جواب :تمام ممالک اس صورتحال کو انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ وہ کسی بھی قابل عمل حل کے لئے ماہرانہ مشوروں پر عمل پیرا ہونے کے لئے تیار ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم کثیر جہتی سطح پر اقدامات کریں تاکہ ہم دوسروں کے تجربات سے سیکھ سکیں۔

سوال : کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے اعلیٰ سطحی ٹیسٹنگ اور درست رپورٹنگ کی کتنی اہمیت ہے؟

جواب : وباء کے بحران کے حوالے سے ہمارے ردعمل کو دیکھ کر اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم ایک کھلے اور شفاف سماج کے بطور کام کررہے ہیں۔ یورپین یونین کے رکن ممالک انفرادی سطح پر وباء کی صورتحال سے متعلق اعداد و شمار اور دیگر تفصیلات منظر عام پر لارہے ہیں۔ یورپین کمیشن بھی ویب سائٹ کی وساطت سے ایسا ہی کررہا ہے۔اس بحران سے نمٹنے کے لئے آپ کو ہم سے ہر طرح کی ضروری اطلاعات اور اعداد و شمار مل سکتے ہیں۔

سوال : کیا اس وباء کی وجہ سے دہلی میں آپ کے سفارتخانے کے معمولات متاثر ہوئے ہیں؟سفارتخانے میں آپ کون سے احتیاطی اقدامات کررہے ہیں؟

جواب :ہم حکومت ہند اور محکمہ صحت کے حکام کی ہدایات پر عمل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ہم اس ضمن میں بہت سنجیدہ ہیں۔ سماجی دُوریاں بنانے ، ہاتھ صاف کرنے ،سفر سے گریز کرنے وغیرہ جیسی ہدایات پر ہم عمل کررہے ہیں۔ ہم نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر سفر کرنا محدود کردیا ہے۔حالانکہ کبھی کبھی ہمیں شہریوں کی مدد کے لئے سفر کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔کیونکہ کئی یورپین باشندوں کو گھر جانے کی ضرورت ہے۔ ہم اُن کی مدد کررہے ہیں۔ جیسا کہ کئی بھارتی شہریوں کو یورپین ممالک سے واپس گھر لوٹنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے ہمیںیہاں یورپین یونین کے لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے پڑتی ہے۔

سوال : اس وباء کے حوالے سے چین کے باشندوں اور بھارت میں نارتھ ایسٹ کے لوگوں پر نسل پرستانہ حملوںکی رپورٹس مل رہی ہیں۔ان رپورٹس کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟

جواب: وبا، کسی قومی سرحد تک محدود نہیں ہے۔ ہم سب اس سے متاثر ہیں۔ ہمیں اس سے متحد ہوکر لڑنا ہوگا۔ آج سب سے زیادہ تعاون اور یکجہتی کی ضرورت ہے۔ہمیں انسانی ہمدردی کا جذنہ اپنانے کی ضرورت ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج ہم انسانی صحت کی بات کررہے ہیں نہ کہ قومی سرحدوں کی ۔

کورونا وائرس کی وباء کے نتیجے میں پیدا شدہ اقتصادی بدحالی سے نمٹنے کے لئے 27ممبرممالک پر مشتمل سیاسی اور معاشی اتحاد یورپی یونین مالی مدد کی فراہمی کی تجویز پر غور کررہا ہے۔ اٹلی ، جہاں اب تک چین سے بھی زیادہ اموات ہوچکی ہیں ،اس نے بھی یو رپین یونین سے کہا ہے کہ وہ کووِڈ19کے نتیجے میں پیدا شدہ معاشی بحران کے تناظر میں بچاؤ فنڈ کا استعمال کرے۔ نئی دہلی میں تعینات یورپین یونین کے سفیراُگو استوٹو کا ماننا ہے کہ وباء سے نمٹنے کے لئے سخت اقدامات اور لاک ڈاؤن وقت کی ایک اہم ترین ضرورت ہے۔

سوال: یورپین یونین کورونا وائرس کے حوالے سے اس وقت کس درجے کے خطرات سے دوچار ہے؟

جواب : یہ وباء اس وقت پوری دُنیا میں پھیل رہی ہے اور اس سے نمٹنے کے لئے عالمی سطح کی کوششیں درکار ہیں۔ہمیں استقلال کے ساتھ عوامی صحت عامہ کی حفاطت کرنی ہوگی اور مزید اموات روکنے کیلئے یک جٹ ہوکر استقلال کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔اس ضمن میں اس وقت یورپ میں ہم نے کئی اہم اقدامات کئے ہوئے ہیں۔ ہم نے سرحدیں بند کرلی ہیں۔ سائنسی شواہد کے تلقین کے عین مطابق ہم نے لاک ڈاؤن کیا ہے۔ہم نے ’’ کووڈکارڈی نیشن‘‘ بھی قائم کی ہے۔ تمام رکن ممالک نے وہ ضروری اقدامات شروع کرلئے ہیں ، جو اس وقت کئے جانے چاہیں۔ہم نے اس بحران کے نتیجے میں متوقع معاشی نقصانات سے نمٹنے کیلئے بھی اقدامات شروع کئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے وائرس کے پھیلاؤ نتائج سے نمٹنے کے لئے بھی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ ہم اس جنگ کو جیت سکتے ہیں۔ یورپین یونین کے پاس قابل سائنسداں ہیں ۔ ہم نے اس وباء کی تحقیق اور علاج کے لئے پبلک اور پرائیویٹ فنڈنگ کے ذریعے 140ملین یوروز فراہم کئے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم جتنی جلدی ہوسکے ، اس وباء کے تدارک کیلئے ویکسین تلاش کریں ۔اس ضمن میں ہم پوری شفافیت برت رہے ہیں۔یورپین کمیشن اور دیگر کئی ویب سائٹس پر ہم نے اعداد و شمار اور اطلاعات میسر رکھی ہوئی ہیں۔ ہم اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ کھلے اور درست اطلاعات کی فراہمی اس بحران سے نمٹنے میں ضروری ہے۔مقامی اور قومی سطح کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ہم عالمی سطح پر بھی متحد ہوکر کام کریں کیونکہ وباء سرحدوں کا لحاظ نہیں رکھتی ہے۔ہمیں اس وقت کثیر الجہتی میکانزم اپنانے کی ضرورت ہے۔

سوال: وباء پھوٹنے کے بعد بھی یورپین یونین میں سرحدوں کی قید کے بغیربھی لوگوں کی آمد و رفت جاری رہی ۔ اس کے نتیجے میں کتنا خطرہ پیدا ہوگیا ہے؟کیا اب کووڈ 19سے متاثرہ مسافروں کی شناخت ممکن ہوپائے گی ؟

جواب: ہم اس پر کام کررہے ہیں ۔ لاک ڈاؤن کار گر ثابت ہورہا ہے ۔ ہم تمام طرح کے ضروری اقدامات کررہے ہیں۔ ہم عوامی صحت عامہ کے تحفظ کے لئے ہر طرح کے اقدامات کررہے ہیں۔ ہم عالمی ادارہ صحت (WHO)کے مشوروں پر عمل کررہے ہیں۔ ہم صحت سے جڑی تنظیموں کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں اور ہم کئی سخت اقدامات کررہے ہیں۔ کئی ضروری فیصلے لے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم انسانی جذبے کے تحت سماجی اور معاشی معاملات کے حوالے سے بھی اقدامات کررہے ہیں۔فی الوقت عوام کی صحت کو تحفظ فراہم کرانا ہماری اولین ترجیح ہے۔

سوال : بھارت نے یورپین یونین کو بھی سفری پابندی کی فہرست میں شامل کردیا ہے ۔ دوسری جانب جبکہ کئی بھارتی طلبا بھی یورپین یونین کے مختلف شہروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کیا یورپین یونین اور بھارت ایک دوسرے کے شہریوں کے ویزا میں توسیع کررہے ہیں؟

جواب :ہاں ہم ایسا کررہے ہیں۔ انفرادی سطح پر رکن ممالک ایسا کررہے ہیں۔ ہم یورپی یونین کی سطح پر بھی اس مسئلے میں مدد کررہے ہیں۔ہم یہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ ہم سب یکساں طور پر اس مسئلے سے دو چار ہیں۔ہمیں نرم رویہ کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ایسا کرنا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔خواہ یورپی یونین کے لوگ بھارت میں ہوں یا بھارت کے لوگ یورپ میں ہوں ، ہم شہریوں کی مدد کے حوالے سے وسیع اقدمات کررہے ہیں ۔کیونکہ ایسا کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

سوال : کیا آپ کو لگتا ہے کہ سرحدوں کو بند کرنا اس وباء سے نمٹنے کا ایک موثر طریقہ ہے؟ یا پھر سب کو استثنیٰ دینا کوئی حل ہوسکتا ہے؟

جواب:میں کوئی ماہر طب نہیں ہوں ۔ لیکن یورپی یونین سائنسی ماہرین کے مشوروں کے مطابق فیصلے لے رہی ہے۔ہم جو بھی اقدامات کررہے ہیں ، سائنسی شواہد کی روشنی میں کررہے ہیں۔

سوال: اس وباء کے نتیجے میں پیدا شدہ معاشی مشکلات سے نمٹنے کے لئے حکومتوں کو کس طرح کے پیکیجز فراہم کرنے چاہیں؟

جواب :ہم نے تحقیق اور ویکسین کی تلاش کے لئے 140ملین یوروز فراہم کئے ہیں۔ ہم نے عالمی ادارہ صحت ( WHO) کو بھی 400ملین یوروز کی پیشکش کی ہے۔ ہم سب مل کر اس وباء کو قابو کرنے کارگر طریقے تلاش کرسکتے ہیں۔اسی طرح ہم متوقع معاشی بحران، جس کی وجہ سے کئی سماجی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں، اس سے بھی نمٹ سکتے ہیں۔ہم پہلے ہی متعدد اقدامات کرچکے ہیں۔ہم بجٹ میں متوقع معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے کئی رعایات دے رہے ہیں اور استحکام اور معاشی بہتری کے لئے کئی طرح اقدامات کررہے ہیں۔وائرس کو قابو کرنے کیلئے ہر ممکن قدام اٹھا یا جارہا ہے۔صورتحال سے نمٹنے کے لئے جو کچھ بھی ممکن ہو، ہمیں کرنا چاہیے۔ہم نئے اور نرالے حل تلاش کرنے کے لئے تیار ہیں۔

سوال: وزیر اعظم مودی نے G20کو آن لائن سطح پر یک جٹ کرنے کیلئے سارک طرز کی ایک کانفرنسز کرنے کی تجویز دی ہے تاکہ عالمی بحران سے نمٹنے کیلئے کثیر الجہتی اقدامات کئے جاسکیں ۔ آپ اس تجویز کو کیسے دیکھتے ہیں؟

جواب: ایسا کرنا بہت ضروری ہے۔ ہم وزیر اعظم مودی کے اس اقدام کو سراہتے ہیں ۔ ایسا کرنا وقت کی ایک اہم ترین ضرورت تھی۔ماضی میں کبھی بھی کثیر الجہتی اداروں کی اتنی ضرورت نہیں رہی ہے ، جتنی آج ہے۔ہمیں بین الاقوامی تعاون اور یکجہتی کو فروغ دینا ہوگا۔بہتر تال میل کے لئے ہمیں تمام طرح کے میکانزم کو استعمال کرنا ہوگا۔تاکہ ہم اس بحران سے نکل آئیں۔

سوال: اس وقت کئی ممالک میں لاک ڈاؤن جاری ہے ۔ کیا ایسے حالات میں G7کی جانب سے پیش کی گئیں تجاویز G20میں نافذ کی جاسکتی ہیں؟

جواب :تمام ممالک اس صورتحال کو انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ وہ کسی بھی قابل عمل حل کے لئے ماہرانہ مشوروں پر عمل پیرا ہونے کے لئے تیار ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم کثیر جہتی سطح پر اقدامات کریں تاکہ ہم دوسروں کے تجربات سے سیکھ سکیں۔

سوال : کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے اعلیٰ سطحی ٹیسٹنگ اور درست رپورٹنگ کی کتنی اہمیت ہے؟

جواب : وباء کے بحران کے حوالے سے ہمارے ردعمل کو دیکھ کر اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم ایک کھلے اور شفاف سماج کے بطور کام کررہے ہیں۔ یورپین یونین کے رکن ممالک انفرادی سطح پر وباء کی صورتحال سے متعلق اعداد و شمار اور دیگر تفصیلات منظر عام پر لارہے ہیں۔ یورپین کمیشن بھی ویب سائٹ کی وساطت سے ایسا ہی کررہا ہے۔اس بحران سے نمٹنے کے لئے آپ کو ہم سے ہر طرح کی ضروری اطلاعات اور اعداد و شمار مل سکتے ہیں۔

سوال : کیا اس وباء کی وجہ سے دہلی میں آپ کے سفارتخانے کے معمولات متاثر ہوئے ہیں؟سفارتخانے میں آپ کون سے احتیاطی اقدامات کررہے ہیں؟

جواب :ہم حکومت ہند اور محکمہ صحت کے حکام کی ہدایات پر عمل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ہم اس ضمن میں بہت سنجیدہ ہیں۔ سماجی دُوریاں بنانے ، ہاتھ صاف کرنے ،سفر سے گریز کرنے وغیرہ جیسی ہدایات پر ہم عمل کررہے ہیں۔ ہم نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر سفر کرنا محدود کردیا ہے۔حالانکہ کبھی کبھی ہمیں شہریوں کی مدد کے لئے سفر کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔کیونکہ کئی یورپین باشندوں کو گھر جانے کی ضرورت ہے۔ ہم اُن کی مدد کررہے ہیں۔ جیسا کہ کئی بھارتی شہریوں کو یورپین ممالک سے واپس گھر لوٹنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے ہمیںیہاں یورپین یونین کے لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے پڑتی ہے۔

سوال : اس وباء کے حوالے سے چین کے باشندوں اور بھارت میں نارتھ ایسٹ کے لوگوں پر نسل پرستانہ حملوںکی رپورٹس مل رہی ہیں۔ان رپورٹس کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟

جواب: وبا، کسی قومی سرحد تک محدود نہیں ہے۔ ہم سب اس سے متاثر ہیں۔ ہمیں اس سے متحد ہوکر لڑنا ہوگا۔ آج سب سے زیادہ تعاون اور یکجہتی کی ضرورت ہے۔ہمیں انسانی ہمدردی کا جذنہ اپنانے کی ضرورت ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج ہم انسانی صحت کی بات کررہے ہیں نہ کہ قومی سرحدوں کی ۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.