ETV Bharat / bharat

'عدالت کے فیصلے کسی سیاسی جماعت کے حق میں نہیں' - renowned lawyer harish salve

نامور وکیل ہریش سالوے نے کہا کہ 'کسی کو عدالت کے فیصلوں پر تنقید کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن یہ کہنا کہ کسی جج نے کسی سیاسی جماعت کے حق میں فیصلہ کیا ہے غلط ہے'۔

one can criticise a judgment, but attributing political motives wrong: Salve
'عدالت کے فیصلے کسی سیاسی جماعت کے حق میں نہیں'
author img

By

Published : May 30, 2020, 12:09 PM IST

نامور وکیل ہریش سالوے نے عدالتی فیصلوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا ہے۔

  • 'اپنی مرضی نہیں چلے گی':

انہوں نے کہا کہ 'جو لوگ سیاسی اعتبار سے منتخب نہیں ہوئے، ایسے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ وہ عدالتوں کے ذریعہ حکومت پر اپنی مرضی مسلط کرسکتے ہیں'۔

انہوں نے یہ مشاہدہ کرتے ہوئے کہا کہ 'کوئی بھی عدالتی فیصلے پر حتیٰ کہ جج پر تنقید کرسکتا ہے، لیکن ان سے سیاسی محرکات منسوب کرنا غلط ہے'۔

  • رازداری کی خلاف ورزی ایک سنگین مسئلہ:

سینئر وکیل نے یہ بھی کہا کہ 'رازداری کی خلاف ورزی ایک سنگین مسئلہ ہے اور نجی اعداد و شمار قیمتی املاک ہیں لیکن بھارتی عوام اس میں سنجیدہ نہیں ہیں'۔

  • سیاست سے بالاتر عدالتی فیصلے:

ہریش سالوے نے 'سوشل میڈیا مباحث سے عدلیہ کی توہین' کے معاملے پر ایک ویبنر کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'یہ کہنا کہ کوئی بھی فیصلہ کسی سیاسی پارٹی کے حق میں ہے یا جج نے سیاسی جماعت کے حق میں کام کیا ہے غلط ہے'۔

انھوں نے کہا کہ 'آپ کسی فیصلے پر تنقید کرسکتے ہیں کہ جج نے قدامت پسندی اختیار کرلی ہے'۔

سالوے نے کہا کہ 'کچھ افراد الگ طرح کے فیصلوں کے لیے سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں'۔

ان کا کہنا ہے کہ 'جب انہیں سپریم کورٹ سے راحت نہیں ملتی ہے توکچھ لوگ حدود کو پار کرجاتے ہیں'۔

  • کیا عدالت حکومت کے دباو میں آسکتی ہے؟

انھوں نے کہا ہے کہ 'بہت سارے لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ عدالتوں کے توسط سے اپنی مرضی حکومت پر مسلط کرسکتے ہیں۔ ایک شخص عدالت پر یہ کہتے ہوئے تنقید کرسکتا ہے کہ (مزدوروں کے معاملے میں) یا تو عدالت کو مداخلت کرنی چاہئے تھی یا نہیں .. لیکن یہ کہنا کہ حکومت کے دباو میں عدالت خوفزدہ ہے، بالکل غلط ہے'۔

انہوں نے مزید کہا ہے کہ 'اگر میں مقدمہ لڑتا ہوں اور میں ہار جاتا ہوں تو مجھے یہ سوچنا چاہئے کہ میں نے اپنی پوری کوشش کی لیکن میں ہار گیا۔ لیکن اگر مجھے یہ احساس ہو کہ جج نے میرے حق میں فیصلہ نہیں دیا، یہ سوچ غلط ہے'۔

  • انانیت کا رحجان:

سالوے نے کہا ہے کہ 'اگر کوئی جج مجھ سے متفق نہیں ہوتا ہے تو وہ اس کا حق ہے، لیکن اپنی ہی بات منوانے کے رجحان کو ختم کرنا ہوگا'۔

  • جموں و کشمیر اور سپریم کورٹ:

سینئر وکیل نے یہ بھی کہا کہ 'کوئی بھی اس فیصلے سے متفق نہیں ہوسکتا ہے کہ آیا جموں و کشمیر کے تناظر میں 4 جی کی اجازت دی جانی چاہئے یا نہیں لیکن یہ کہنا کہ سپریم کورٹ خطے کے عوام کے ساتھ نہیں کھڑی ہے غلط ہے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ ججوں کی جانب سے رازداری والے تبصرے کی اطلاع کسی کو بھی نہیں دی جانی چاہئے۔

نامور وکیل ہریش سالوے نے عدالتی فیصلوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا ہے۔

  • 'اپنی مرضی نہیں چلے گی':

انہوں نے کہا کہ 'جو لوگ سیاسی اعتبار سے منتخب نہیں ہوئے، ایسے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ وہ عدالتوں کے ذریعہ حکومت پر اپنی مرضی مسلط کرسکتے ہیں'۔

انہوں نے یہ مشاہدہ کرتے ہوئے کہا کہ 'کوئی بھی عدالتی فیصلے پر حتیٰ کہ جج پر تنقید کرسکتا ہے، لیکن ان سے سیاسی محرکات منسوب کرنا غلط ہے'۔

  • رازداری کی خلاف ورزی ایک سنگین مسئلہ:

سینئر وکیل نے یہ بھی کہا کہ 'رازداری کی خلاف ورزی ایک سنگین مسئلہ ہے اور نجی اعداد و شمار قیمتی املاک ہیں لیکن بھارتی عوام اس میں سنجیدہ نہیں ہیں'۔

  • سیاست سے بالاتر عدالتی فیصلے:

ہریش سالوے نے 'سوشل میڈیا مباحث سے عدلیہ کی توہین' کے معاملے پر ایک ویبنر کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'یہ کہنا کہ کوئی بھی فیصلہ کسی سیاسی پارٹی کے حق میں ہے یا جج نے سیاسی جماعت کے حق میں کام کیا ہے غلط ہے'۔

انھوں نے کہا کہ 'آپ کسی فیصلے پر تنقید کرسکتے ہیں کہ جج نے قدامت پسندی اختیار کرلی ہے'۔

سالوے نے کہا کہ 'کچھ افراد الگ طرح کے فیصلوں کے لیے سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں'۔

ان کا کہنا ہے کہ 'جب انہیں سپریم کورٹ سے راحت نہیں ملتی ہے توکچھ لوگ حدود کو پار کرجاتے ہیں'۔

  • کیا عدالت حکومت کے دباو میں آسکتی ہے؟

انھوں نے کہا ہے کہ 'بہت سارے لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ عدالتوں کے توسط سے اپنی مرضی حکومت پر مسلط کرسکتے ہیں۔ ایک شخص عدالت پر یہ کہتے ہوئے تنقید کرسکتا ہے کہ (مزدوروں کے معاملے میں) یا تو عدالت کو مداخلت کرنی چاہئے تھی یا نہیں .. لیکن یہ کہنا کہ حکومت کے دباو میں عدالت خوفزدہ ہے، بالکل غلط ہے'۔

انہوں نے مزید کہا ہے کہ 'اگر میں مقدمہ لڑتا ہوں اور میں ہار جاتا ہوں تو مجھے یہ سوچنا چاہئے کہ میں نے اپنی پوری کوشش کی لیکن میں ہار گیا۔ لیکن اگر مجھے یہ احساس ہو کہ جج نے میرے حق میں فیصلہ نہیں دیا، یہ سوچ غلط ہے'۔

  • انانیت کا رحجان:

سالوے نے کہا ہے کہ 'اگر کوئی جج مجھ سے متفق نہیں ہوتا ہے تو وہ اس کا حق ہے، لیکن اپنی ہی بات منوانے کے رجحان کو ختم کرنا ہوگا'۔

  • جموں و کشمیر اور سپریم کورٹ:

سینئر وکیل نے یہ بھی کہا کہ 'کوئی بھی اس فیصلے سے متفق نہیں ہوسکتا ہے کہ آیا جموں و کشمیر کے تناظر میں 4 جی کی اجازت دی جانی چاہئے یا نہیں لیکن یہ کہنا کہ سپریم کورٹ خطے کے عوام کے ساتھ نہیں کھڑی ہے غلط ہے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ ججوں کی جانب سے رازداری والے تبصرے کی اطلاع کسی کو بھی نہیں دی جانی چاہئے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.