ETV Bharat / bharat

سپریم کورٹ کا مرکز کو نوٹس - جموں و کشمیر

سپریم کورٹ نے فاروق عبداللہ کی نظربندی معاملے میں وائیکو کی عرضی پر مرکز اور جموں و کشمیر انتظامیہ کو نوٹس دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے فاروق عبداللہ کی نظربندی معاملے میں وائیکو کی عرضی پر مرکز اور جموں و کشمیر انتظامیہ کو نوٹس دی
author img

By

Published : Sep 16, 2019, 12:26 PM IST

Updated : Sep 30, 2019, 7:37 PM IST

تامل ناڈو سے راجیہ سبھا کے رکن وائیکو نے جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کی خانہ نظربندی سے رہائی کیلئے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی تھی۔

چیف جسٹس رنجن گگوئی کی قیادت والی بینچ نے اس معاملے کی اگلی سماعت 30 ستمبر کو مقرر کی ہے۔

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے اس سے پہلے کہا تھا کہ فاروق عبد اللہ کسی بھی قسم کی نظر بندی میں نہیں ہے۔

وائیکو نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ تامل ناڈو کے سابق وزیر اعلیٰ این انادھرائی کی سالگرہ کی تقریبات میں شامل ہونے کے لیے فاروق عبد اللہ کو مہمان کی حیثیت سے مدعو کیا گیا تھا لیکن وہ طویل عرصے سے رابطے میں نہیں ہیں۔

انہوں نے سپریم کورٹ سے گزارش کی تھی کہ وہ ہدایت دیں کہ فاروق عبداللہ کو عدالت عظمیٰ کے روبرو کیا جائے اور انہیں 11 ستمبر کو انادھرائی کی سالگرہ تقریبات میں شرکت کی اجازت دے۔

فاروق عبداللہ کو ایک ماہ سے زیادہ عرصہ سے سری نگر میں نظربند کیا گیا ہے حالانکہ وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ انہیں نظر بند نہیں کیا گیا ہے۔ فاروق عبداللہ نے امت شاہ پر الزام لگایا تھا کہ ملک کے وزیر داخلہ نے پارلیمنٹ میں جھوٹ بولا۔

پانچ اگست کو مختصر وقفے کیلئے فاروق عبداللہ میڈیا کے سامنے آئے تھے لیکن اس کے بعد انہیں گپکار روڑ پر واقع ان کی رہائش گاہ میں نظر بند کردیا گیا۔ ان کے فرزند اور سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ ایک مقامی ہوٹل میں مقید ہیں۔ اس ہوٹل کو جیل میں تبدیل کیا گیا۔

وائیکو بھارت کے ان چند قومی رہنماؤں میں شامل ہیں جنہوں نے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے اور ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے حکومتی فیصلے کی جم کر مخالفت کی۔ وائیکو، جموں و کشمیر کے عوام کو حق خود ارادیت دینے کی وکالت کررہے ہیں۔

وائیکو نے عدالت عظمیٰ میں فاروق عبداللہ کی رہائی کیلئے حبس بے جا (ہیبس کارپس) کے تحت رٹ دائر کی اور انہیں عدالت کے روبرو کرنے کی درخواست کی تھی۔

جموں و کشمیر میں 5 اگست کو حکومت ہند کی جانب سے دفعہ 370 کو غیر مؤثر بنانے اور ریاست کا خصوصی آئینی درجہ منسوخ کئے جانے کے بعد سے امتناعی احکامات مسلسل نافذ ہیں جن سے عام زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔

حکام نے مواصلاتی نظام پر کلی یا جزوی پابندیاں عائد کی ہیں جب کہ وادی کے متعدد مقامات پر فورسز کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے۔انتظامیہ کے بعض اہلکاروں اور پولیس تھانوں کے موبائل فون بحال کئے گئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ وادی کے سبھی ٹیلیفون ایکسچینج فعال بنائے گئے ہیں اور اب لوگ لینڈ لائن فونز کے ذریعے رابطہ کرسکتے ہیں۔

خیال رہے کہ 5 اگست کو جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے سے قبل ہی سیاسی جماعتوں کے سربراہان سمیت کئی ہند نواز رہنماؤں کو سرینگر کے سنتور ہوٹل میں نظر بند رکھا گیا ہے۔ ان رہنماؤں میں ریاست کے سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ بھی شامل ہیں۔

تامل ناڈو سے راجیہ سبھا کے رکن وائیکو نے جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کی خانہ نظربندی سے رہائی کیلئے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی تھی۔

چیف جسٹس رنجن گگوئی کی قیادت والی بینچ نے اس معاملے کی اگلی سماعت 30 ستمبر کو مقرر کی ہے۔

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے اس سے پہلے کہا تھا کہ فاروق عبد اللہ کسی بھی قسم کی نظر بندی میں نہیں ہے۔

وائیکو نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ تامل ناڈو کے سابق وزیر اعلیٰ این انادھرائی کی سالگرہ کی تقریبات میں شامل ہونے کے لیے فاروق عبد اللہ کو مہمان کی حیثیت سے مدعو کیا گیا تھا لیکن وہ طویل عرصے سے رابطے میں نہیں ہیں۔

انہوں نے سپریم کورٹ سے گزارش کی تھی کہ وہ ہدایت دیں کہ فاروق عبداللہ کو عدالت عظمیٰ کے روبرو کیا جائے اور انہیں 11 ستمبر کو انادھرائی کی سالگرہ تقریبات میں شرکت کی اجازت دے۔

فاروق عبداللہ کو ایک ماہ سے زیادہ عرصہ سے سری نگر میں نظربند کیا گیا ہے حالانکہ وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ انہیں نظر بند نہیں کیا گیا ہے۔ فاروق عبداللہ نے امت شاہ پر الزام لگایا تھا کہ ملک کے وزیر داخلہ نے پارلیمنٹ میں جھوٹ بولا۔

پانچ اگست کو مختصر وقفے کیلئے فاروق عبداللہ میڈیا کے سامنے آئے تھے لیکن اس کے بعد انہیں گپکار روڑ پر واقع ان کی رہائش گاہ میں نظر بند کردیا گیا۔ ان کے فرزند اور سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ ایک مقامی ہوٹل میں مقید ہیں۔ اس ہوٹل کو جیل میں تبدیل کیا گیا۔

وائیکو بھارت کے ان چند قومی رہنماؤں میں شامل ہیں جنہوں نے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے اور ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے حکومتی فیصلے کی جم کر مخالفت کی۔ وائیکو، جموں و کشمیر کے عوام کو حق خود ارادیت دینے کی وکالت کررہے ہیں۔

وائیکو نے عدالت عظمیٰ میں فاروق عبداللہ کی رہائی کیلئے حبس بے جا (ہیبس کارپس) کے تحت رٹ دائر کی اور انہیں عدالت کے روبرو کرنے کی درخواست کی تھی۔

جموں و کشمیر میں 5 اگست کو حکومت ہند کی جانب سے دفعہ 370 کو غیر مؤثر بنانے اور ریاست کا خصوصی آئینی درجہ منسوخ کئے جانے کے بعد سے امتناعی احکامات مسلسل نافذ ہیں جن سے عام زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔

حکام نے مواصلاتی نظام پر کلی یا جزوی پابندیاں عائد کی ہیں جب کہ وادی کے متعدد مقامات پر فورسز کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے۔انتظامیہ کے بعض اہلکاروں اور پولیس تھانوں کے موبائل فون بحال کئے گئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ وادی کے سبھی ٹیلیفون ایکسچینج فعال بنائے گئے ہیں اور اب لوگ لینڈ لائن فونز کے ذریعے رابطہ کرسکتے ہیں۔

خیال رہے کہ 5 اگست کو جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے سے قبل ہی سیاسی جماعتوں کے سربراہان سمیت کئی ہند نواز رہنماؤں کو سرینگر کے سنتور ہوٹل میں نظر بند رکھا گیا ہے۔ ان رہنماؤں میں ریاست کے سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ بھی شامل ہیں۔

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Sep 30, 2019, 7:37 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.