بھارت میں دنیا کے کسی بھی بر اعظم کے مقابلے میں ووٹروں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔سابق وزیر اعظم مرحوم اٹل بہاری واجپائی نے ملک میں انتخابات کو جمہوری کنبھ میلہ سے تشبیہ دی جبکہ الیکشن کمیشن اسے قومی جشن قرار دیتا ہے ۔لیکن حقیقت میں بھارت کے انتخابات عوامی میلے ثابت ہوتے جا رہے ہیں جن میں جمہوریت کے جذبے اور اس کے اقدار کو بھینٹ چڑدھا دیا جاتا ہے ۔
الیکشن کمیشن جس کو آئینی طور پر صاف و شفاف اور منصفانہ انتخابات منعقد کرنے کا منڈیٹ حاصل ہے اس نے سنہ 1998 ، سنہ 2004 اور سنہ 2015 میں جامع منصوبے پیش کئے جائے، تاکہ اس جمہوری نظام کو مزید مستحکم اور مضبوط کیا جا سکے ۔لیکن حکومت نے ان منصوبوں کو بڑی مہارت سے درکنار کردیا ہے جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے اپنی سرگرمیوں کو سپریم کورٹ کی جانب سے مفاد عامہ میں دائر کی جانے والی عرضیوں پر ملنے والی ہدایات تک محدود کیا ہے ۔الیکشن کمیشن اب کچھ نئی تجاویز لے کر سامنے آیا ہے ۔
گزشتہ سال کے لوک سبھا انتخابات کے بعد 9 ٹاسک فورس ٹیموں کا قیام عمل میں لایا گیاتھا۔الیکشن کمیشن نے ان ٹیموں کی سفارشات کو اکھٹا کرکے کچھ تجاویز پیش کی ہیں۔
موجودہ طریقہ کار کے تحت ووٹر لسٹ میں نام کے اندراج یا اخراج ایڈریس میں تبدیلی کیلئے ذاتی درخواستیں دینا مطلوب ہیں لیکن چونکہ یہ کافی بوجھل عمل ہے جس سے لوگوں کو تکلیف ہو تی ہے اس لئے الیکشن کمیشن نے ان سب خدمات کیلئے محض ایک دستاویز کی تجویز پیش کی ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ یہ کام بہت پہلے کیا جانا چاہئے تھا اس کے علاوہ یہ خدمات 50 سال سے زائد عمر کے سینئر شہریوں اور جسمانی طور پر ناخیز افراد کو گھر بیٹھے فراہم کی جانی چاہئیے۔
یہ ایک اچھا خیال ہے کہ تمام 17سال کے نوجوانوں کو آن لائن رجسٹر کیا جائے اور 18 سال کی عمر میں ان کی بطور ایک ووٹر کے نشاندہی کی جائے ۔سال میں چار بار ووٹروں کو رجسٹر اور الیکٹرانک ووٹر شناختی کارڑ جاری کرنا ایک قابل ستائش تجویز ہے ۔بھارت میں 30 فیصد ووٹر اپنا حق رائے دیہی استعمال نہیں کرپاتے ہیں کیونکہ وہ وہاں نہیں رہتے ہیں جہاں انہیں بطور ووٹر رجسٹر کیا گیا ہو تا ہے ۔الیکشن کمیشن ایسے ووٹروں کی سہولت کیلئے کوئی نظام وضع کرنے پر غور کررہا ہے ۔
سیاسی جماعتوں کے انتخابی اخراجات پر ایک حد مقرر کرنے کی تجویز تو سننے میں اچھی معلوم ہو تی ہے لیکن کمیشن سیاسی جماعتوں کی جانب سے اختیار کئے گئے کورپٹ طرز عمل جس سے یہ سارا جمہوری عمل ایک مذاق بن کر رہ جاتا ہے پر کیسے روک لگاسکتا ہے ۔
بھارت میں انتخابات حقیقت میں دادا گیری ہے ۔سنٹر برائے میڈیا اسٹڈیز کے ایک مطالعے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکہ میں ہوئے پچھلے صدارتی انتخابات اور بھارت کے پچھلے عام انتخابات میں کوئی موازنہ ہی نہیں تھا ۔پچھلے عام انتخابات میں امریکہ کے صدارتی الیکشن میں 25 فیصد( 55 سے 60 ہزار کروڑ روپے )سے زائدکا خرچہ آیا۔الیکشن کمیشن ریاستی اسمبلی انتخابات میں اخراجات پر ایک حد عائد کرتا ہے جو واقعی میں قابل ستائش ہے، تاکہ مختلف امیدواروں کوبرابری کا انتخابی میدان میسر ہو سکے ۔
الیکشن کمیشن کاکہنا ہے کہ اس نے سنہ 2015 میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ امیدوار کے منظور شدہ انتخابی اخراجات کا 50 فیصد اس کی جماعت کو برداشت کرنا چاہئے تاکہ الیکشن میں غیر قانونی پیسے کی ریل پیل پر روک لگائی جا سکے ۔حقیقت یہ ہے کہ سنہ 2010 میں الیکشن کمیشن نے ایک تجویز پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ سیاسی جماعتیں جتنے امیدواروں کی حمایت کرتی ہیں اسی کے حساب سے ان کے الیکشن اخراجات کی حد مقرر کی جائے۔بھارتی جنتا پارٹی نے اس تجویز کی یہ کہہ کر مخالفت کی کہ اس سے ذات پات کی سیاست بڑھ جائیگی جس کے ساتھ ہی اس تجویز کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا ۔
گزشتہ سال کے عام انتخابات میں کانگریس کے انتخابی اخراجات سنہ 2014 کے 516 کروڑ روپے سے 820 کروڑ روپے پہنچ گئے۔اسی طرح بی جے پی کے اخراجات جو سنہ 2014 میں 714 کروڑ روپے تھے سنہ 2019 میں بڑھ کر 1200 کروڑ روپے تک پہنچ گئے ۔انتخابی عمل کے تقدس کو جو بڑا گناہ پامال کررہا ہے وہ بلیک منی یا کالا دھن اور مجرمانہ سیاست ہے ساتھ میں یہ معاشرے کے تانے بانے کو بھی کمزور کررہی ہے ۔یہ بات قابل غور ہے کہ الیکشن کمیشن کے منصوبوں اور تجاویز میں یہ معاملات کہیں نظر نہیں آ رہے ہیں ۔
کسی بھی جمہوری ادارے کامعیار اس کا طرز عمل اس کی دیانتداری، اس کے موثرہونے، اس کی صلاحیتوں کا دار و مدار ، ان اداروں کی سربراہی کرنے والوں پر منحصر ہو تا ہے ۔کم و بیش 25 سال پہلے این این ووہرا کمیٹی نے کہا تھا کہ آج کے دور کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ جن مجرموں نے زمینوں پر ناجائز تجاوزات کرکے بے شمار دولت کمائی ہے وہ خود کو سیاسی لیڈر کے طور پیش کررہے ہیں۔
مفاد عامہ میں اشونی کمار اپدھیائی کی دائر عرضی میں کہا گیا ہے کہ جب کسی کیلئے ایک معمولی جرم کے الزام کی پاداش میں ڈاکٹر ، انجینئر، پولیس سپر انٹنڈنٹ یا جج بننا ناممکن ہے تو یہ غیر منطقی اور غیر متعلقہ ہے کہ کسی شخص کو رکن پارلیمان بنادیا جائے جس کا مجرمانہ ماضی ہو ۔
سپریم کورٹ کی رولنگ نیم دلانہ ہے ۔الیکشن کمیشن کی مجرمانہ ماضی رکھنے والے امیدواروں اور ان کی حمایت کرنے والی سیاسی جماعتوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے والی اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں کو حکم دیا کہ وہ عوامی طور پر آگاہ کریں کہ انہوں نے ایسے امیدواروں کی حمایت کیوں کی ۔
ایک ایسا ملک جہاں ایک کلرک کی نوکری کیلئے بھی پہلے تحریری امتحان اور پھر انٹرویو دینا پڑتا ہے وہاں لوگوں کی نمائندگی اور ان کی حکمرانی کرنے والوں کیلئے کوئی طریقہ کار وضع کیوں نہیں کیا جاتا ہے ۔جو لوگ دیوالیہ ہوں وہ قانون کے مطابق الیکشن لڑ نہیں سکتے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ جو ملک کو دیوالیہ بناتے ہیں وہ آزادی سے گھوم پھر رہے ہیں ۔جب تک ایسے صورتحال کو تبدیل نہیں کیا جاتا کہ جہاں سرکاری نوکری حاصل کرنے کیلئے ایک طریقہ کار موجود تو ہے لیکن عوامی نمائندوں کیلئے نہیں توایسے وقت تک ملک میں موجودہ جمہوری نظام کا کوئی حل نکالنا ناممکن ہے۔