چند ممتاز ماہرین تعلیم نے کہا ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی کے نفاذ سے نہ صرف ملک میں اعلی تعلیم کے معیار میں بہتری آئے گی بلکہ اس سے مسابقت میں بھی اضافہ ہوگا اور خود انحصار ہندوستان کی تعمیر بھی ہوگی۔
ماہرین تعلیم نے اس رائے کا اظہار پریس انفارمیشن بیورو کولکاتہ کے زیر اہتمام ایک ویبینار میں کیا۔ ویبینار میں سابق ماہر تعلیم جگ موہن سنگھ راجپوت، انڈین انسٹیٹیوٹ آف ماس کمیونیکیشن کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور پی جی پٹرولیم اینڈ انرجی یونیورسٹی کے شعبہ میڈیا کے ڈین کے جی سریش اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی کے پروفیسروں سمیت متعدد ماہرین تعلیم نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
یہ بھی پڑھیں: نئی تعلیمی پالیسی میں اردو زبان کو فراموش کیا گیا
چک موہن سنگھ راجپوت نے کہا کہ نئی تعلیمی پالیسی نہ صرف طلبہ بلکہ اساتذہ اور اسکول اور کالج کے پورے نظام تعلیم کے لئے فائدہ مند ہوگی۔ اس سے اعلیٰ تعلیم اور سب کی مجموعی ترقی کے معیار میں بھی بہتری آئے گی اور ملک کی معاشی ترقی بھی ہوگی۔
سریش نے کہا کہ نئی تعلیمی پالیسی میں ہندوستانی زبانوں اور ثقافت کو بھی فروغ دینے کی بات کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، ٹیکنالوجی کے استعمال پر بھی زور دیا گیا ہے، جس سے توقع کی جاتی ہے کہ تعلیم کے شعبے میں نمایاں تبدیلی آئے گی۔
پروفیسر ڈاکٹر تیندرپال نے کہا کہ نئی تعلیمی پالیسی طلبہ کی پیشہ ورانہ تربیت میں مدد فراہم کرے گی اور مختلف شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کرے گی۔
کرشن رائے نے کہا کہ نئی تعلیمی پالیسی خود انحصار ہندوستان اور "ایک بھارت شریشٹھ بھارت" بنانے کے تصور میں مددگار ثابت ہوگی اور ملک کے تعلیمی شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرے گی۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مرزا اسمر بیگ نے کہا کہ نئی تعلیمی پالیسی کے ذریعے طلبہ ملٹی پل انٹری اور ایگزٹ کے ذریعے آئی آئی ٹی آئی ایم کی مساوی تعلیم حاصل کرسکیں گے۔ ویبنار کی نظامت سی آئی ڈی کولکاتہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر سمراٹ بندوپادھیائے نے کی۔