سپریم کورٹ گذشتہ 9 نومبر کو متنازع زمین کو رام مندر کی تعمیر کے لیے رام للا کو دے دیا تھا اور بابری مسجد کے اہم فریق سنی وقف بورڈ کو ایودھیا میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ زمین فراہم کرنے کی ہدایت دی تھی۔
مسجد کی تعمیر کے لیے زمین کہاں ہو اب اس پر تکرار شروع ہوگیا ہے۔ بابری مسجد کے مدعی اقبال انصاری اور ببلو خان کا کہنا ہے کہ متنازع زمین کے ارد گرد 1991 میں مرکزی حکومت کی جانب سے ایکوائر کی گئی 67 ایکڑ زمین ہے۔
دونوں کا کہنا ہے کہ اسی 67 ایکڑ میں سے مسجد کی تعمیر کے لیے زمین دی جانی چاہئے۔ اقبال انصاری کے مطابق حکومت نے ابھی تک یہ نہیں بتایا ہے کہ زمین کہا دی جارہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی دیگر جگہ پر وہ زمین قبول نہیں کریں گے۔
وہیں جس زمین پر تنازع تھا وہ پرمہنس وارڈ میں ہے۔ پرمہنس وارڈ کے کاونسلر حاجی عاصم مطالبہ کیا کہ بابری مسجد کے لیے زمین 67 ایکڑ کے ہی احاطے میں دی جانی چاہئے۔
ایودھیا کے ہی ایک دیگر کاونسلر ببلو خان کا کہنا ہے کہ 14 کلومیٹر کی سرحد کے باہر بھی زمین مسلمانوں کو قبول کرلینا چاہئے۔ ان کے مطابق حکومت جہاں چاہئے مسجد کے لیے زمین دے سکتی ہے۔
وہیں زمین لینے نہ لینے کے معاملے میں یوپی سنی سنٹرل وقف بورڈ کی اہم میٹنگ 26 نومبر کو ہونی ہے۔26نومبر کی میٹنگ کے بعد سنی وقف بورڈ کے اس ضمن میں اپنے موقف کو صاف کرسکتا ہے۔ویسےبورڈ کے چیئر مین ظفر فاروقی زمین لینے کے حق میں ہے۔ ان کے مطابق منفی بات کا جواب مثبت انداز میں دیا جانا چاہئے۔زمین نہ لینی کی صورت میں منفی پیغام جائے گا۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی پہلے ہی زمین نہ لینے کا مشورہ دے چکے ہیں۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اویسی نے کہا تھا کہ مسلمانوں کو مسجد کے لیے خیرات میں زمین نہیں لینی چاہئے بلکہ اپنے پیسوں سے زمین لے کر عالی شان مسجد کی تعمیر کی جانی چاہئے۔
مزید پڑھیں : 'مسلم قیادت میں دور اندیشی کا فقدان'
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد زمین لینے کے معاملے میں دو قسم کی آراء آرہی ہیں کچھ لوگ زمین لینے کے حق میں ہیں اور کچھ زمین نہ لینے کی طرفداری کررہے ہیں۔
بابری مسجد پر سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ آنے کے بعد علما ء کے ایک وفد نے اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ سے ملاقات کر کے مسجد کے لئے ایسی جگہ کا مطالبہ کیا تھا جہاں پر مسجد کےساتھ اسلامی یونیورسٹی کی بھی تعمیر کی جاسکے۔