حکومت ہند نے اپنے قدیم و پرانے 'منصوبہ بندی کمیشن' کو ختم کیا ہے، جبکہ اس ادارے نے 6 دہائیوں میں کئی پانچ سالہ منصوبوں پر عمل درآمد کیا اور اس کو 'نیتی' (قومی انسٹی چیوٹ برائے تبدیلی ہند)آیوگ( لفظی معنی پالیسی کمیشن)کا نام دیا گیا۔
بھارت کے تغیر کے لیے پہلے پانچ برسوں میں اس ادارے نے کافی تبدیلیاں عمل میں لائیں۔ نیتی آیوگ نے نگرانی اور دستیاب ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ ساتھ عوامی اخراجات میں احتساب کو آگے بڑھایا ہے۔ حکومتِ ہند کی اسکیموں کو ڈیجیٹل موڈ میں نافذ کرنے اور پبلک فنڈ مینجمنٹ سسٹم (عوامی رقومات انتظامی نظام) کا استعمال کرتے ہوئے ناگزیر تبدیلیاں اور نگرانی لازمی تھی تاکہ عوامی رقم خرچ کرنے میں شفافیت اور احتساب کو لایا جاسکے۔
اب 30 سال کے بعد قومی تعلیمی پالیسی پر نظرثانی کی تو گئی تاکہ ہندوستانی تعلیمی نظام میں تبدیلی سے بین الا قومی معیار کے ساتھ قومی ضروریات کو لچک اور احتساب کے ساتھ معیار میں بھی بہتری آنے کے ساتھ پورا کیا جاسکے، اگرچہ قومی تعلیمی پالیسی-2020 میں کے بہت سارے نئے رہنما خطوط موجود ہیں تاہم یہ مضمون تحقیق سے متعلقہ پالیسیوں تک ہی محدود رکھا جائے گا۔
سائنس ٹیکنالوجی،انجینئرنگ و ریاضایات سے سسٹم سے سٹیم کی طرف توجہ مرکوز
تعلیم اور تحقیق کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کسی قوم کو خود کفیل ہونے کے لئے تحقیق میں بہت ساری چیزیں کرنی پڑتی ہیں اور جب وہ ہندوستان آتم نربھم(خود خفیل) کی بات کر رہا ہے تو اس صورت میں زیادہ مناسب ہے تحقیق میں کی جانے والی سرمایہ کاری طویل عرصے میں مستقل طور پر زیادہ منافع بخشے گی۔ تحقیق پر خرچ کرنے کے لئے سرمایہ کاری پر منافع ہمیشہ زیادہ رہے گا۔
بھارت میں اسکول / کالج / یونیورسٹیز میں ثقافتی ، لسانی اور سماجی و معاشی تنوع کے لئے نوجوان ذہنوں کو زبردستی دھکیلنے سے بہت سارے طلباء کو مختلف مسائل، جو ہمارے معاشرے کو پریشان کرتے ہیں، کا حل تلاش کرنے کے لئے متحرک کرتا ہے ۔انسانیت وسوشل سائنسز میں تحقیق کے لئے اس طرح کی نمائش ہوئی ہے جو یونیورسٹیز میں تحقیقی ثقافت کی پرورش کرنے والی چیزوں کو تیز تر بناتی ہے۔ لیکن سائنس ، ٹکنالوجی ، انجینئرنگ اور ریاضی مضامین میں تحقیق بڑے پیمانے پر یونیورسٹیز سے باہر ہوتی ہے۔ یونیورسٹی کے محققین ایک طرف ہندوستان میں سائنس دانوں اور دوسری طرف ان مضامین میں عالمی رہنماوں سے مقابلہ کرتے ہیں۔
یونیورسٹیز کے لئے فائدہ مند چیز یہ ہے کہ سال در سال ان کے پاس نیا ہنر آتا ہے، قومی تعلیمی پالیسی 2020 نے کثیر الثباتاتی اداروں کی شکل میں تبدیل کرنے کے لئے جامعات آئی آئی ٹی و این آئی ٹی سمیت اعلی تعلیم کے اداروں کی ایک بڑی تعداد کو کثیر الجامعتی اداروں میں دیکھنے کا تصور کیا۔ پالیسی میں اعلیٰ تعلیم کو سٹیم (آرٹس کے ایک اہم جزو لانے) کے مرکوز اداروں میں تبدیلی دیکھنا ہے اور ان کی تحقیق کو اسٹیم کے مضامین تک محدود نہیں رکھنا ہے۔ اس پالیسی کی عمل میں عام طور پر دنیا اور خاص طور پر بھارت کے لئے فنون لطیفہ اور معاشرتی علوم کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔
قومی تحقیق فاﺅنڈیشن
بھارت کے متعدد پروفیسرز کو بھارت میں تحقیق پر سرمایہ کاری کے انوکھے نمونے پر ترقی یافتہ ممالک میں ہم عصروں کے ذریعہ کی جانے والی ایک تیز مشاہدہ کا تجربہ ہے۔ حکومت ہند کی جانب سے 15 ہزارسے زیادہ ریسرچ فیلوشپس اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کے ہزاروں فیلو شپس کے لیے تعاون کیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم کی ریسرچ فیلوشپ (پی ایم آر ایف) اسکیم کے تحت ہمارے پاس پرکشش اور انتہائی مسابقتی ریسرچ فیلوشپس دستیاب ہیں۔
بھارت میں تحقیق کے لئے بنیادی طور پر ہنر مند نوجوانوں کو راغب کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا لازمی ہے تا کہ وہ بغیر کسی تجسس سے تحقیق کو شوق کے طور پر تلاش کریں۔ نوجوان محققین کو اتنے بڑے پیمانے پر تعاون فراہم کیا جاتا ہے جس میں پی ایچ ڈی ڈی کے لئے براہ راست تحقیقات کی فلو شپ بھی شامل ہے ، جو قومی سطح کے ایک مقابلے کے ذریعے دی جاتی ہے ۔ تحقیقاتی گرانٹ بھی آزادانہ طور پر (ریسرچ گرانٹ کے عالمی سطح کے مقابلے میں) سائنس دانوں اور اعلی تعلیم اداروں کی تحقیقاتی لیبارٹریوں میں محققین کو کامیابی کی اعلیٰ شرح کے ساتھ دیا جاتا ہے۔
اعلیٰ تعلیمی اداروں کو تحقیقی ڈھانچہ دیا گیا ہے جنہوں نے دیئے ہوئے حالات میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ محکمہ سائنس اور ٹکنالوجی (ڈی ایس ٹی) ، محکمہ بائیوٹیکنالوجی (ڈی بی ٹی) ، ہندوستانی کونسل برائے زرعی تحقیق (آئی سی اے آر) ، کونسل آف سائنسی اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (سی ایس آئی آر) ، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے ذریعہ مختلف اسکیموں کو نافذ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انفرادی طور اور گروپوں کی سطح پر بھی محقیین کو معاونت کی جاتی ہے۔ اس طرح کی تائید کا استعمال کرتے ہوئے ، کچھ مرکزی مالی اعانت سے چلنے والے اعلی ادارہ جات جیسے بنارس ہندو یونیورسٹی دہلی یونیورسٹی ، حیدرآباد یونیورسٹی وغیرہ ، نے معیاری تحقیق کے حصول کیلئے انسٹیٹیوشن آف ایمنینس قائم کیا ہے۔
یہ یونیورسٹیز تحقیق سے متعلق اعلیٰ اداروں کی لیگ میں شامل ہوگئیں جن میں ہندوستانی انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اور کئی آئی آئی ٹی شامل ہے جنہیں 'آئی او ای' مل گیا۔ بھارت میں تحقیقی یونیورسٹیز قائم کرنے کے لئے اس طرح کے مزید اعلیٰ تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے اور قومی تعلیمی پالیسی 2020 نے اس نکتے کو واضح کیا ہے۔ ہونہار طلباء کو فیلو شپ اور محققین و سائنس دانوں کو تحقیقی گرانٹ نے بھارت میں تحقیقی کلچر کو ڈرامائی انداز میں بہتر بنایا ہے۔ ٹیکس دہندگان کی تحقیقات پر خرچ ہونے والی رقم کے لئے مزید احتساب لانے کے لئے موجودہ نقطہ نظر کو مزید عمدہ طور پر کسنے کی ضرورت ہے۔
نیشنل ریسرچ فاونڈیشن (این آر ایف) قومی تعلیمی پالیسی-2020 کے ذریعے تشکیل دیا گیا ہے جس میں تحقیقی پیداوار کے معیار کو بڑھانے کے مقصد کے ساتھ شفافیت اور احتساب کی بڑھتے ہوئے گراف حاصل کرنے کے لئے ایک قدم کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ قومی تحقیقی فاﺅنڈئشن( این آر ایف) کو تحقیقات کی ترجیحات کو طے کرنا ہوگا۔ قومی ضروریات کی نشاندہی کرنا ہوگی ، عالمی معیارات پر تحقیق کرنے کے لئے محققین کی مدد کرنا ہوگی اور تحقیقات کے فنڈز وصول کرنے والے افراد یا گروہوں کی کارکردگی کی نگرانی کرنا ہوگی۔ قومی تعلیمی پالیسی ملک میں قومی تحقیقی فاﺅنڈیشن کو تحقیقی ماحولیاتی نظام تبدیل کرنے کے لئے ایک آلہ کے طور پر دیکھتی ہے۔
تحقیقی ماحول کی پرورش
ایک ایسا ملک جس میں ایک ہزار سے زائد اعلیٰ تعلیمی ادارے ہے، ہمیں ان میں سے مزید اداروں کو تحقیقاتی یونیورسٹیز کے لئے اہل سے زیادہ کی ضرورت ہے۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو ایک دوسرے کی کوششوں کی تکمیل کے لئے حکمت عملی کو احتیاط سے بنانا اور 'نان اوور لیپپنگ' علاقوں کی نشاندہی کرنا ہوگی۔ حکومت کی جانب سے تحقیقاتی اصولوں پر سمجھوتہ کیے بغیر اعلی معیار کی تحقیق کو فروغ دینے کے لیے مرکزی یونیورسٹیز کی کامیابی کی کہانیوں پر تعمیری اسکیموں کو تیار کرنا ہے۔
سرکاری اداروں میں پیچیدگیوں کو دیکھتے ہوئے ایک ایسا ماڈل تیار کیا جاسکے جو مستقل ملازمت فراہم کریں اور اس طرح پیش کیا جائے کہ وہ احتساب اور جوابدہی سے موافقت رکھ سکیں۔ ساتھ ہی وہ 5 یا 7 سال کی مدت کے لئے پیشہ ور افراد کی خدمات حاصل کرنے کے مترادف نہیں ہو۔ نوجوانوں پر اعتماد ظاہر کرنے کی ضرورت ہے اور ان نوجوانوں کو یقینی تقرری کا یقین دینا ہائبرڈ ماڈل ہوسکتا ہے۔
ابتدائی علامات سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانی انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (آئی آئی ایس ای آر) میں اس طرح کے ہائبرڈ ماڈل کا تجربہ کیا گیا۔ ایک ہی وقت میں ، یہ بھی یقینی بنانا ضروری ہے کہ اعلیٰ تعلیمی ادارے صحت مند تحقیقاتی ثقافت کو تعمیر کریں۔ یہ ایک ایسی ثقافت جو اچھے تحقیقی سوالات پوچھنے کو فروغ دیتی ہے ، ایسی ثقافت جو بڑھتی ہوئی یا خلل انگیز جدت کو فروغ دیتی ہے ، ایسی ثقافت جو نوجوانوں کو شروعاتی گرانٹ فراہم کرتی ہے ، ایک ایسی ثقافت جو باہمی تعاون کی حوصلہ افزائی کرتی ہے ، ایک ایسی ثقافت جو بین المذاہب تحقیق کے لئے کھلی ہو ، ایک ایسی ثقافت جو محققین کو اجازت دیتی ہو جو بڑے سوالات وغیرہ کو حل کریں، اور اس کیلئے ہندوستان کو عالمی سطح پر مسابقت کے لئے زیادہ سے زیادہ اعلی تعلیمی اداروں کی تعمیر اور ان کی پرورش کرنی ہوگی۔
ریاستی یونیورسٹیز جو بڑی تعداد میں ہیں انھیں اکثر مختلف پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بیشتر ریاستی یونیورسٹیوں میں نوجوانوں کی بڑی تعداد ہے جس میں وسائل کی کمی ہے جس میں اساتذہ کی عدم دستیابی بھی شامل ہے۔ فیکلٹی میں کھبی کھبار ہوتی ہے ، جس میں 10 سے 20 سال کا فاصلہ ہوتا ہے ، اور یہ عمل تحقیق کے مواقع کو گھٹا دیتا ہے۔ کئی کیمپس تحقیق کے بارے میں سوچنے کے لئے مناسب ڈھانچوں کی کمی کا شکار ہیں۔ یہ صورتحال نوجوان محققین کو اپنے تحقیقی اہداف کے حصول کے لئے ایک جگہ سے دوسری جگہ طواف کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ کچھ کیمپس میں غیر منظم پانی اور بجلی کی فراہمی ہے ، بلا خلل انٹرنیٹ خدمات کا فقدان ایک اور مسئلہ ہے۔ ریاستی حکومتوں کو فوری ضرورت ہے تحقیقاتی ثقافت کی تشکیل اور برقرار رکھنے کیلئے وہ یونیورسٹی کیمپس کی بحالی کے لیے کمر کس لی ہیں جبکہ ریسرچ یونیورسٹیوں کی حیثیت حاصل کرنے کے لئے مقابلہ میں رہیں۔
ریاستی یونیورسٹیز کے تقلید کے لئے رول ماڈل انا یونیورسٹی ، ساوتری بائی پھولے یونیورسٹی آف پونے ، جادا پور یونیورسٹی ، پنجاب یونیورسٹی وغیرہ ہوسکتے ہیں۔ تعلیم چونکہ ایک مشترکہ مضمون ہے، جس کے تناظر میں حکومت ہند ریاستوں کے ساتھ ہم آہنگی کریں تاکہ وہ خواب پورا ہوسکے جو قوم کو تحقیقی قوتوں پر استوار اور تحقیق کرنے سے متعلق جو مقامی ضروریات کو پورا کرتا ہو اور عالمی معیار کا ہو۔ اس کے لئے ایک موثر نظم و نسق کا نظام درکار ہے جو آمنے سامنے ملاقاتوں کے بغیر انگلی کے اشارے (لیپ ٹاپ یا موبائلوں پر) کی تشخیص میں آسانی کرتا ہے۔
وبائی مرض کی صورتحال پر ویڈیو کانفرنس پر مبنی میٹنگوں کا تجربہ ایک چھوٹا سا معمولی اجلاس ہوگا جس سے مختصر ملاقاتوں کے لئے طویل سفر سے بچنا ، توانائی اور وسائل دونوں کی بچت ہوسکتی ہے اور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کارکردگی میں اضافہ ہوگا۔
(پروفیسر اپا راؤ پوڈلی، یونیورسٹی آف حیدر آباد کے وائس چانسلر اور جے سی بوس فیلو ہیں۔)