امریکی صدر ڈونلد ٹرمپ 24 اور 25 فروری کو دو روزہ بھارت کا دورہ کرنے والے ہیں، ٹرمپ کے ہمراہ ان اہلیہ میلانیا ٹرمپ احمد آباد پہنچیں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد پر ایک منفرد ثقافتی پروگرام پیش کیا جائے گا جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس طرح کے ثقافتی پروگرام انہوں نے کبھی مشاہدہ نہیں کیا ہوگا یا پھر دوبارہ نہیں دیکھ پائیں گے۔
12 فروری 2020 کو اپنے اوول آفس میں بھارت دورے کا اعلان کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہوائی اڈے سے حال ہی میں تعمیر کئے گئے دنیا کے سب سے بڑے 'سردار ولبھ بھائی پٹیل اسٹیڈیم' تک راستے میں لاکھوں لوگ سڑک کے دونوں کنارے ان کا استقبال کریں گے۔ اسٹیڈیم میں وزیراعظم نریندر مودی کے ہمراہ صدر ٹرمپ ایک لاکھ لوگوں کے اجتماع سے خطاب کریں گے۔
دہلی میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور دفاعی سامان کی خرید و فروخت کے بارے میں انتہائی اہمیت کے حامل دو معاہدوں پر دستخط متوقع ہے۔
ٹرمپ اور نریندر مودی درمیان ملاقات میں باہمی دلچسپی کے دوطرفہ 'علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر بھی بات ہوگی، یہ بات یہاں قابل ذکر ہے کہ امریکہ اور بھارت میں تقریباً 60 اعلیٰ سطحی مذاکراتی نظام 'جن میں 2+2 منسٹرئیل ڈائیلاگ' بھی شامل ہیں' موجود ہے، دفاع اور وزارت خارجہ کے درمیان 2+2 مذاکرات کا تازہ دور گزشتہ برس دسمبر میں واشنگٹن میں ہوا تھا۔
جون 2016 میں بھارت اور امریکہ نے 'گلوبل اسٹریٹیجک پارٹنرشپ' کو وجود میں لایا، امریکہ نے بھارت کو 'اہم دفاعی پارٹنر' قرار دے کر اسے امریکہ کے دوسرے قریبی اتحادیوں جیسا درجہ دیا ہے۔
سنہ 2005 تک تقریباً 40 برسوں تک بھارت نے امریکہ سے کوئی دفاعی سامان در آمد نہیں کیا تھا اور گزشتہ 15 برسوں میں امریکہ، بھارت کا دوسرا سب سے بڑا دفاعی پارٹنر بن کے ابھرا ہے جس نے اب تک زائد از 18 بلین ڈالر مالیت کا دفاعی ساز و سامان بھارت کو سپلائی کیا ہے جبکہ ٹرمپ کے اس دورے کے بعد مزید کئی دفاعی سمجھوتے متوقع ہیں۔
اس لیے اس بات پر یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ سنہ 1971 میں صدر نکسن نے امریکہ کے ساتویں بیڑے، جس کی سربراہی یو ایس ایس انٹرپرائز کررہا تھا، کو حکم دیا تھا کہ وہ خلیج بنگال کا رخ کرے تاکہ بھارت کو بنگلہ دیش کے مجاہدین آزادی، جو پاکستان کی فوج سے لڑ رہے تھے، کی مدد سے روکا جاسکے ، امریکہ نے اپنے نئے دوست چین کی بھی حوصلہ افزائی کرنا شروع کی تھی تا کہ بھارت کے خلاف ایک اور محاذ کھولا جاسکے۔
مئی سنہ 1998 میں حکومت کی جانب سے جوہری دھماکوں کے بعد بھارت پر پابندیاں عائد کرنے میں امریکہ نے قائدانہ رول ادا کیا، البتہ 1998 سے 2000 تک اُس وقت کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ اور نائب امریکی وزیر خارجہ سٹروب ٹالبوٹ کے درمیان 7 ممالک میں ہوئے مذاکرات کے 14 ادوار نے دونوں کے تعلقات میں بحران کو مواقع میں تبدیل کردیا۔
22 برسوں کے بعد سنہ 2000 میں امریکی صدر بل کلنٹن کے 5 روزہ دورے سے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہوا، اس کے بعد دونوں نے پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا۔
سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے بھارت کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ( این ایس جی) سے رعایت دلانے میں کلیدی رول ادا کیا، بش نے چین (جو بھارت کے خلاف تھا)،کے صدر ہو جنتاؤ کو فون کیا جس سے 6 ستمبر سنہ 2008 کو بھارت کے حق میں این ایس جی کی رعایات ممکن بن گئی۔
اس سے قبل 3 مارچ 2006 کو دہلی میں منعقد ایک تقریب کے دوران خطاب میں جارج بش نے کہا تھا کہ 'امریکہ اور بھارت پہلے سے بہت زیادہ قریب ہیں ہم دو آزاد ممالک کی پارٹنرشپ میں اتنی طاقت ہے کہ وہ دنیا کو بدل سکتے ہیں۔
نومبر2010 میں بھارت کے پارلیمنٹ سے خطاب میں صدر بارک اوبامہ نے سلامتی کونسل میں بھارت کی مستقل رکنیت کی حمایت کا عہد کیا تھا، اوبامہ کا کہنا تھا کہ 'ایشیاء اور دنیا بھر میں 'بھارت ابھر نہیں رہا ہے بلکہ ابھر چکا ہے'۔
یہاں یہ بات دلچسپ ہے کہ سنہ 1950 میں امریکہ نے سلامتی کونسل میں بھارت کی مستقل رکنیت کے لیے حمایت کی پیشکش کی تھی لیکن وزیراعظم نہرو نے یہ موقف اختیار کیا کہ کمیونسٹ چین، بھارت سے بہتر دعویدار ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے گا تو اجنبی جمہوریت سے ایک دوسرے کے دستوں تک کے سفر کے دوران بھارت اور امریکہ کے باہمی تعلقات میں جو بدلاؤ ہوا ہے اس کا محض 15 برس قبل تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں یہ بدلاؤ آیا کیسے؟ اس کی کئی وجوہات ہیں، دونوں ممالک میں جمہوریت اور اجتماعیت ہے، بڑھتی ہوئی بھارتی معیشت، بھارت کے مارکیٹ کا حجم اور بھارتی نژاد امریکی شہریوں کا اثر و رسوخ۔ اس کے علاوہ امریکہ بھارت کی ترقی کا خیر مقدم کرتا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دونوں ممالک کے باہمی مفادات متصادم نہیں ہیں۔
چین کا غیر معمولی عروج بھی اس کی ایک وجہ ہے جو پہلے سے موجود جیو اسٹریٹیجک پیراڈائم اورامریکہ کی قیادت کو چیلنج کررہا ہے، اس تناظر میں بھارت کو اب ایک جوابی طاقت کے طور دیکھا جارہا ہے۔(جاری)
(وشنو پرکاش جنوبی کوریا اور کنیڈا میں بھارت کے سفیر کے علاوہ وزارت خارجہ کے ترجمان بھی رہ چکے ہیں۔)