خاص بات یہ ہے کہ عالمی شہرت یافتہ شاعر پروفیسر وسیم بریلوی نے مشاعرے میں آنلائن شرکت کرتے ہوئے حضور سرور کائناتؐ کی شان میں نعتیہ اشعار پیش کیے۔
نعتیہ مشاعرے میں نشتر بریلوی نے نعتیہ کلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ
آفتابِ حشر کی گرمی کا ہم کو ڈر نہیں
ہم گناہ گاروں کو ہے دامانِ رحمت پر گھمنڈ
شاعر اسرار نسیمی کے اس شعر پر سامعین نے داد و تحسین سے نوازہ کہ
باپ، ماں، بھائی، بہن، فرزند و جن دختر عزیز
سارے رشتے ایک طرف، آقا کی نسبت ایک طرف
ڈاکٹر امن بریلوی نے میلاد کا منظر بیان کرتے ہوئے کلام پیش کیا کہ
رات مہکی، صبح چمکی، دن منوّر ہو گیا
جلوہ فرما جس گھڑی محبوب داور ہو گیا
اس درمیان نوجوان شاعر بلال راز کے اس شعر کو کافی پسند کیا گیا کہ
لاکھ ہو آشائشیں پر یا نبیؐ اچھی نہیں
دور رہکر آپ سے یہ زندگی اچھی نہیں
عدنان کاشف کے اس شعر پر سامعین نے کافی داد دی
جلوہ نماء وہ جب ہوئے تاریک غار میں
سو سو چراغ جل اُٹھے ایک ایک درار میں
بزم میر و غالب کے سرپرست باقر زیدی کے اس شعر پر تو سامعین جھوم اُٹھے جب اُنہوں نے نعتیہ کلام پیش کرتے ہوئے پڑھا کہ
جس کا یہ سارا زمانہ، وہ خدا میرا خدا
جس کی یہ ساری خدائی، وہ نبی میرا نبی
بزرگ شاعر شباب کاسگنجوی نے نعتیہ کلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ
شبِ معراج رضواں کو ہدایت ہو گئی جاری
سجائی جائے جنّت، مالک و مختار آتے ہیں
عامر ربّانی نے کلام پیش کرتے ہوئے خوب داد و تحسین حاصل کی اور پڑھا کہ
ورنہ اُنہیں دینے میں کوئی دیر نہیں لگتی
عامر کی طلب میں ہی لگتا ہے کمی ہوگی
خاص طور پر داد حاصل کرنے والے انور سینتھلی نے کلام پیش کیا کہ
میرا طیبہ کی گلیوں میں نکلا جو دم
میری میّت فرشتہ اُٹھانے لگے
اور آخر میں سعید بریلوی نے کلام پیش کیا کہ
سخن تراش یہ فطرت میرے حضور کی ہے
کہ مسکرانے کی عادت میرے حضور کی ہے
ماہ ربیع الاوّل میں 'بزم میر و غالب' کے زیر اہتمام منعقد ہوئے نعتیہ مشاعرے میں تقریباً دو درجن سے زائد شعراء کرام نے شرکت کی۔ جیسے جیسے رات کی تارکیاں بڑھتی گئی ویسے ویسے مشاعرے کے خوش نماء ماحول میں کلام کی بارش ہوتی رہی۔