گذشتہ روز مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے دہلی میں ایک اجلاس طلب کیا تھا جس میں مسلم رہنماؤں اور دانشوروں نے شرکت کی۔
فلمساز و ہدایتکار مظفر علی بھی اس اجلاس میں شامل تھے۔ ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران انہوں نے بتایا کہ 'میں چاہتا ہوں کہ ملک میں بس امن قائم رہے، فیصلہ چاہے کچھ بھی ہو'۔
انہوں نے کہا کہ 'میں اکیلا آدمی ہوں کسی سے جڑا نہیں ہوں، ہم ہمیشہ اپنے حلقے میں امن و امان اور محبت کی بات کرتے ہیں اور ہم سماج کو صوفی و دستکاری پیغام کے ذریعے جوڑنے کا کام کرتے ہیں۔'
فلم انڈسٹری کے تعلق سے کیے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ 'ہمارے ذریعہ فلم انڈسٹری تک کوئی اثر نہیں پڑے گا، میں ادنیٰ سا آدمی ہوں، مجھے بلایا گیا میں حاضر ہوگیا'۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا فیصلہ ہو سکتا ہے تو اس پر وہ کسی بھی طرح کی پیشن گوئی سے بچتے نظر آئے۔ انہوں نے کہا کہ 'خدا جانتا ہے کیا فیصلہ ہوگا۔ میں بس امن چاہتا ہوں'۔
فلم ساز مظفر علی نے کہا کہ ایک دوسرے پر باہمی انحصار میں ہی ہماری بقا ہے اور آج اس کی ضرورت شدت سے محسوس ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں مسلمان اور ہندو اقتصادی طورپر ایک دوسرے پر منحصر ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ امن و محبت برقرار رہے۔
اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی کی رہائش گاہ پر یہ میٹنگ تقریباً ڈھائی گھنٹے چلی۔ میٹنگ کے بعد نقوی نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ 'شرکاء نے عوام کو ایسے افراد سے ہوشیار رہنے کی اپیل کی جو اپنے ذاتی مفادات کے لیے ملک کے اتحاد اور خیر سگالی کو نقصان پہنچانے کی سازش میں مصروف ہیں۔'