ETV Bharat / bharat

جھارکھنڈ کی سیاست میں مسلمان مؤثر کیوں نہیں؟ - کیوں مؤثر نہیں ہیں مسلمان

ریاست جھارکھنڈ کی کم و بیش دو کروڑ آبادی کا 14 فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ریاست کی ترویج و ترقی میں سب سے بڑی اقلیت کا رول نا قابل فراموش ہے لیکن آبادی کے تناسب سے ان کی سیاسی نمائندگی بہت کم ہے۔

جھارکھنڈ کی سیاست میں مسلمان کہاں ہیں خصوصی پیش کس
author img

By

Published : Nov 21, 2019, 9:34 AM IST

Updated : Nov 21, 2019, 3:27 PM IST

بہار تھرو دی ایجز کے مصنف رنگاناتھ رام چندر دیو اکر لکھتے ہیں کہ جھارکھنڈ میں مسلمانوں کی تاریخ آٹھ سو برس قدیم ہے اور اس ریاست کے قیام کی تحریک بھی انکی ہی دین ہے۔

جھارکھنڈ کی سیاست میں مسلمان کہاں ہیں خصوصی پیش کس

بہار سے علیحدگی اور جھارکھنڈ ریاست کے قیام کا نظریہ 1912 میں عصمت علی نامی ایک سیاسی رہنما نے پیش کیا تھا جو 1919 تک ایک بھرپور تحریک کا روپ اختیار کرگئی۔ اس تحریک کو وقتاً فوقتاً چراغ علی، محمد مرتضیٰ انصاری، محمد اشرف خان، زبیر احمد اور محمد سعید جیسی شخصیات نے جلا بخشی۔

مسلم فرقے کی ترجمان مومن کانفرنس نے سات جولائی 1990 کے روز جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور رانچی میں جھارکھنڈ ریاست کے قیام کے لئیے ایک قرارداد منظور کی گئی۔ جو اس بات کی غماز ہے کہ ریاست کے قیام میں اس طبقے کا رول کتنا اہم رہا ہے۔

سنہ دوہزار میں ریاست جھارکھنڈ کا باضابطہ قیام عمل میں آیا۔ اکیاسی نششتوں پر مشتمل ریاستی اسمبلی میں اقلیتی فرقے کی نمائندگی بہت کم ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلی اسمبلی میں صرف جامتاڑا حلقے سے عرفان انصاری اور پاکوڑ سے عالمگیر عالم، کانگریس کی ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔

جھارکھنڈ میں سنتھال پرگنہ کا علاقہ مغربی بنگال کی سرحد سے ملا ہوا ہے یہاں کئی ایسی اسمبلی نشستیں ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور یہاں کسی بھی امیدوار کی ہار جیت کا فیصلہ بھی یہی کرتے ہیں لیکن انکا ووٹ ہمیشہ پلڑے کو بھاری یا ہلکا کرنے کیلئے استعمال کیا گیا ہے۔

لیکن صورتحال ہمیشہ مایوس کن نہیں رہی ہے۔ سنہ 2009 کے اسمبلی انتخابات میں اقلیتی فرقے کے پانچ نمائندے جیت کر اسمبلی پہنچے تھے، پاکوڑ اور مدھو پور اسمبلی نشست سے جے ایم ایم کے امیدوار عقیل اختر اور حاجی حسین انصاری، دھنوار اسمبلی حلقے سے جھارکھنڈ وکاس مورچہ کے نظام الدین انصاری، گانڈے اور دھنباد سے کانگریس کے سرفراز احمد اور منان ملک کی جیت ہوئی تھی۔

اس سے قبل سنۂ 2005 میں ریاست کی پہلی اسمبلی کیلئے پاکوڑ سے کانگریس کے عالمگیر اور بوکارو سے محمد عزرائیل انصاری کی جیت ہوئی تھی۔

یہی صورتحال صرف اسمبلی میں نمائندگی تک ہی محدود نہیں ہے۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بھی مسلمانوں کی نمائندگی صفر ہے، ریاست کے قیام کے بعد سنۂ 2004 میں گڈا پارلیمانی حلقے سے کانگریس کی ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہے فرقان انصاری کی جیت ہوئی تھی۔ یہ جھارکھنڈ میں چودہ پارلیمانی حلقوں سے کسی مسلم نمائندے کی پہلی اور اب تک کی آخری جیت ثابت ہوئی ہے۔ ریاست کی چھ راجیہ سبھا نشستوں پر بھی یہی حال ہے۔

نئی سیاسی صف بندی میں مجلس اتحادالمسلمین ریاست جھارکھنڈ میں پیر جمانے کی کوشش کررہی ہے۔

پارٹی کا امیدوار جمشید پور اسمبلی حلقے سے انتخابی میدان میں ہے، وہیں دوسری طرف مجلس نے وزیر اعلیٰ کے خلاف ایک سکھ امیدوار کو بھی میدان میں اتارا ہے۔ مجلس اتحادالمسلمین کے میدان میں آنے سے مسلمانوں کی سیاسی صورتحال اثر انداز ہوگی یا نہیں، اس کا اندازہ 23 دسمبر کو ہوگا جب سبھی امیدواروں کی تقدیر کا فیصلہ سنایا جائے گا۔

بہار تھرو دی ایجز کے مصنف رنگاناتھ رام چندر دیو اکر لکھتے ہیں کہ جھارکھنڈ میں مسلمانوں کی تاریخ آٹھ سو برس قدیم ہے اور اس ریاست کے قیام کی تحریک بھی انکی ہی دین ہے۔

جھارکھنڈ کی سیاست میں مسلمان کہاں ہیں خصوصی پیش کس

بہار سے علیحدگی اور جھارکھنڈ ریاست کے قیام کا نظریہ 1912 میں عصمت علی نامی ایک سیاسی رہنما نے پیش کیا تھا جو 1919 تک ایک بھرپور تحریک کا روپ اختیار کرگئی۔ اس تحریک کو وقتاً فوقتاً چراغ علی، محمد مرتضیٰ انصاری، محمد اشرف خان، زبیر احمد اور محمد سعید جیسی شخصیات نے جلا بخشی۔

مسلم فرقے کی ترجمان مومن کانفرنس نے سات جولائی 1990 کے روز جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور رانچی میں جھارکھنڈ ریاست کے قیام کے لئیے ایک قرارداد منظور کی گئی۔ جو اس بات کی غماز ہے کہ ریاست کے قیام میں اس طبقے کا رول کتنا اہم رہا ہے۔

سنہ دوہزار میں ریاست جھارکھنڈ کا باضابطہ قیام عمل میں آیا۔ اکیاسی نششتوں پر مشتمل ریاستی اسمبلی میں اقلیتی فرقے کی نمائندگی بہت کم ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلی اسمبلی میں صرف جامتاڑا حلقے سے عرفان انصاری اور پاکوڑ سے عالمگیر عالم، کانگریس کی ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔

جھارکھنڈ میں سنتھال پرگنہ کا علاقہ مغربی بنگال کی سرحد سے ملا ہوا ہے یہاں کئی ایسی اسمبلی نشستیں ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور یہاں کسی بھی امیدوار کی ہار جیت کا فیصلہ بھی یہی کرتے ہیں لیکن انکا ووٹ ہمیشہ پلڑے کو بھاری یا ہلکا کرنے کیلئے استعمال کیا گیا ہے۔

لیکن صورتحال ہمیشہ مایوس کن نہیں رہی ہے۔ سنہ 2009 کے اسمبلی انتخابات میں اقلیتی فرقے کے پانچ نمائندے جیت کر اسمبلی پہنچے تھے، پاکوڑ اور مدھو پور اسمبلی نشست سے جے ایم ایم کے امیدوار عقیل اختر اور حاجی حسین انصاری، دھنوار اسمبلی حلقے سے جھارکھنڈ وکاس مورچہ کے نظام الدین انصاری، گانڈے اور دھنباد سے کانگریس کے سرفراز احمد اور منان ملک کی جیت ہوئی تھی۔

اس سے قبل سنۂ 2005 میں ریاست کی پہلی اسمبلی کیلئے پاکوڑ سے کانگریس کے عالمگیر اور بوکارو سے محمد عزرائیل انصاری کی جیت ہوئی تھی۔

یہی صورتحال صرف اسمبلی میں نمائندگی تک ہی محدود نہیں ہے۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بھی مسلمانوں کی نمائندگی صفر ہے، ریاست کے قیام کے بعد سنۂ 2004 میں گڈا پارلیمانی حلقے سے کانگریس کی ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہے فرقان انصاری کی جیت ہوئی تھی۔ یہ جھارکھنڈ میں چودہ پارلیمانی حلقوں سے کسی مسلم نمائندے کی پہلی اور اب تک کی آخری جیت ثابت ہوئی ہے۔ ریاست کی چھ راجیہ سبھا نشستوں پر بھی یہی حال ہے۔

نئی سیاسی صف بندی میں مجلس اتحادالمسلمین ریاست جھارکھنڈ میں پیر جمانے کی کوشش کررہی ہے۔

پارٹی کا امیدوار جمشید پور اسمبلی حلقے سے انتخابی میدان میں ہے، وہیں دوسری طرف مجلس نے وزیر اعلیٰ کے خلاف ایک سکھ امیدوار کو بھی میدان میں اتارا ہے۔ مجلس اتحادالمسلمین کے میدان میں آنے سے مسلمانوں کی سیاسی صورتحال اثر انداز ہوگی یا نہیں، اس کا اندازہ 23 دسمبر کو ہوگا جب سبھی امیدواروں کی تقدیر کا فیصلہ سنایا جائے گا۔

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Nov 21, 2019, 3:27 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.