رہنماؤں نے کہا کہ دو مساجد کے انہدام نے وزیراعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ پر مسلم برادری کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے جو خود کو ایک سیکولر رہنما کی حیثیت سے پیش کررہے ہیں۔
اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اسدالدین اویسی، مذہبی اسکالرز اور مختلف مسلم تنظیموں کے رہنماؤں نے حیدرآباد میں پرانے سیکریٹریٹ کے احاطے میں دو مساجد کے انہدام کی مذمت کی ہے اور ان مساجد کی فوری تعمیر نو کا مطالبہ کیا ہے۔
حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اور مختلف مسلم گروہوں کی ایک متحدہ تنظیم یونائیٹڈ مسلم فورم (یو ایم ایف) کے دیگر رہنماؤں نے کہا کہ دونوں مساجد کا 'المناک' اور 'غیر آئینی' انہدام مسلمانوں کے لیے باعث تکلیف ہے۔
اسد الدین اویسی جو آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اور تلنگانہ راشٹریہ سمیتی (ٹی آر ایس) کی حلیف جماعت ہے اور دیگر رہنماؤں نے متنبہ کیا کہ اگر حکومت ان مساجد کی تعمیر نو کے لئے اسی جگہ پر اقدامات کرنے میں ناکام رہی تو بلاتاخیر مسلمان سخت احتجاج شروع کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلمان اس عمل پر حکومت سے ناراض ہیں کیونکہ اسلامی عقیدے کے مطابق ایک مسجد اللہ تعالی کی ملکیت ہے اور اس کی حیثیت کو کبھی تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ دو مساجد کے انہدام نے وزیراعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ پر مسلم برادری کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے جو خود کو ایک سیکولر رہنما کی حیثیت سے پیش کررہے ہیں۔
مساجد کو اسی جگہ دوبارہ تعمیر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلمان کبھی بھی دوسری جگہ پر ان کی تعمیر نو کو قبول نہیں کرسکتے ہیں۔
مشترکہ بیان اسدالدین اویسی ، ان کے بھائی اور تلنگانہ اسمبلی میں اے آئی ایم آئی ایم کے رہنما اکبر الدین اویسی، مولانا اکبر نظام الدین اور جامعہ نظامیہ کے مولانا مفتی خلیل احمد، جماعت اسلامی کی تلنگانہ یونٹ کے سربراہ مولانا حامد محمد خان کے ذریعہ جاری کیا گیا ہے۔
جمعیت العلما تلنگانہ اور آندھرا پردیش یونٹ کے صدر مولانا حافظ پیر شبیر احمد ، ممتاز مذہبی اسکالرز مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، مولانا جعفر پاشا اور دیگر رہنماؤں نے نشاندہی کی کہ دونوں مساجد (مسجد ہاشمی اور سیکریٹریٹ کی مسجد) کا وقف بورڈ اور سرکاری گزٹ میں ریکارڈ موجود ہے ۔
دریں اثنا وقف بورڈ نے تاخیر سے حرکت میں آتے ہوئے اقلیتی بہبود کے سکریٹری کو ایک خط بھیجا جس میں ان دونوں مساجد کو بچانے کی اپیل کی۔ وقف بورڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عبد الحمید نے خط کے ساتھ مساجد کے گزٹ نوٹیفکیشن بھی ارسال کیے۔ انہوں نے لکھا کہ انہدام سے امن و امان کے مسائل پیدا ہوں گے مسلمان ناراض ہوں گے۔
وقف بورڈ کے ریکارڈ کے مطابق سیکریٹریٹ کی مسجد 677 مربع گز میں پھیلی ہوئی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہاں باقاعدگی سے نماز پڑھائی جاتی تھی۔ گذشتہ سال سکریٹریٹ کو قریب کے بی آر کے بھون منتقل کرنے کے بعد بھی مسجد میں نماز کا سلسلہ جاری رہا اور کووڈ 19 بریک آؤٹ اور اس کے نتیجے میں لاک ڈاؤن کے بعد ہی لوگوں نے وہاں نماز پڑھنا چھوڑ دی۔
سن 2008 میں غیر منقسم آندھرا پردیش میں وائی ایس ایس راج شیکھر ریڈی کے دور حکومت میں اقلیتی بہبود کے محکمہ نے مسجد کی تزئین و آرائش کے لئے 35 لاکھ روپے جاری کیے تھے اور یہ کام 2010 میں مکمل ہوا تھا۔
دریں اثنا کانگریس کے رہنما محمد علی شبیر جو راج شیکھر ریڈی کی کابینہ میں وزیر تھے نے کہا کہ ٹی آر ایس حکومت نے پرانی سیکریٹریٹ کمپلیکس میں دو مساجد اور ایک مندر کو منہدم کرکے مسلمانوں اور ہندوؤں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔ انہوں نے یاد دلایا کہ 27 جون 2019 کو وزیر اعلی کو لکھے گئے خط میں انہوں نے ان سے عبادت گاہوں کو بچانے کی اپیل کی تھی۔
شبیر نے کہا کہ کچھ وزرا نے یقین دلایا ہے کہ عبادت گاہوں کا تحفظ کیا جائے گا۔ کانگریس رہنما نے کہا کہ ٹی آر ایس حکومت نے مساجد اور مندر کو مسمار کرکے عوام کے ساتھ دھوکہ کیا۔