رنگوں سے ہر ایک کو لگاؤ ہوتا ہے، کوئی رنگ کسی کو پسند ہوتا ہے تو کوئی رنگ کسی کو، اور ہر فرقہ کے لوگ اس تہوار کو مانتے ہیں لیکن ہولی کے نام پر جو شورو غل کیا مچایا جاتا ہے،اس سے مزہ بدمزہ میں بدل جاتا ہے۔
ہولی منانے والی لڑکیوں کا بھی ماننا ہے کہ ہولی ایک قومی تہوار ہےاسے مل جل کر منایا جانا چاہئے لیکن کچھ لوگ اس تہوار کو کیچڑ اور پانی والے رنگوں کا استعمال کرتے ہیں وہ کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں ہے۔
ہولی کھیلنی والی ان مسلم طالبات کا ماننا ہےکہ ہولی کے موقع پر بجنے والے فحش بھوجپوری گیت اور بے ہنگم رقص سے سے یہ تہوہار بدمزہ ہوجاتا ہے۔
عام طور پر یہ خیال کیا جا تا ہے کہ عید اور ہولی ملک کا قومی تہوار ہے۔
جسے ہر فرقے کے لوگ بھائی آپس میں مل جل کر مناتے ہیں اور معاشرے کو اخوت کا پیغام دیتے ہیں۔ لیکن بھوجپوری کے فحش گیت بجانا عام بات ہے جس سے ہولی کی شائستگی کہیں کھو جاتی ہے۔
اس لحاظ سے ان مسلم طالبات کے پیغامات کو عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہولی کے نام پر ایک دوسرے سے پیار بڑھے نہ کہ رنگوں کا یہ خوبصورت تہوار نفرت کے بیج بونے کا سبب بنے۔ تو ہولی منائیے لیکن شائستگی کے ساتھ ۔