ممبئی میں رہنے والے مرتضیٰ علی نے حال ہی میں ایک بڑا اعلان کیا جس کے بعد وہ سوشل میڈیا پر موضوع بحث بن گئے۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی کمائی سے 110 کروڑ رویے پلوامہ حملے کے متاثرین کے لیے وزیراعظم ریلیف فنڈ میں دینے والے ہیں۔
بینائی سے محروم مرتضیٰ علی چاہتے ہیں کہ اس رقم کا استعمال ان انڈین سکیورٹی اہلکاروں کے خاندانوں کی مدد کے لیے کیا جائے جنہوں نے ملک کے لیے اپنی جان دی ہے۔
سوشل میڈیا پر ان کے اس اعلان کے باعث مختلف خیالات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ان کے اس فیصلے کی کھلے دل سے تعریف کی جا رہی ہے۔جبکہ کچھ لوگ ان کے اعلان کو شک وشبہات کی نگاہ سے دیکھ رہی ہیں کہ 110 کروڑ روپے آئے کہیں سے۔
اس کے علاوہ انڈیا کے وزیر ٹرانسپورٹ نتن گڈکری کے ساتھ مرتضیٰ علی کی ایک تصویر بھی سوشل میڈیا پر خوب شیئر کی جا رہی ہے۔
تاہم لوگ اس تشویش کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ خود کو ایک عام تخلیق کار بتانے والے مرتضیٰ علی اتنی بڑی رقم کیسے عطیہ کر رہے ہیں؟
مرتضیٰ علی نے خبر رساں ادارہ بی بی سی سے کہا کہ ' مجھے لوگوں کو اس رقم کا ذریعہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اپنی مرضی سے اپنے ضروری دستاویز کے ساتھ یہ رقم وزیر اعظم کو دینے والا ہوں'۔
مرتضیٰ علی کے بارے میں شائع ہونے والی خبروں پر اگر غور کریں تو ان میں ایک جیسی معلومات ہی موجود ہے۔ وہ یہ کہ ان کا تعلق راجستھان کے شہر کوٹہ سے ہے اور وہ سنہ 2015 میں ممبئی پہنچے۔ وہ بچپن سے ہی بینائی سے محروم ہیں اور ان کا آٹو موبائل کا کاروبار تھا۔ بعد میں وہ تخلیق کار بن گئے۔ فی الحال وہ 'فیول برن' نامی ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں اور وہ 110 کروڑ روپیے عطیہ کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔
مرتضیٰ علی کے بقول پلوامہ حملے کے بعد 25 فروری کو انہوں نے خود میڈیا کو اس بارے میں مطلع کیا تھا۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اگر حکومت نے ان کی ٹیکنالوجی استعمال کی ہوتی تو پلوامہ میں ہلاک ہونے والے 40 سے زیادہ سکیورٹی اہلکاروں کی جان بچ سکتی تھی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یہ ان کا دوسرا بڑا دعویٰ تھا۔ تاہم ان دعووں سے متعلق بی بی سی کے متعدد سوالات کے جواب مرتضیٰ نہیں دے پائے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم کے دفتر نے بھی ان کے دعووں پر متعدد سوالات کئے ہیں۔
مرتضیٰ نے بتایا کہ ایک بڑی کمپنی کے ساتھ مل کر انہوں نے فیول برن ٹیکنالوجی تیار کی ہے۔ لیکن یہ کمپنی انڈین ہے یا غیر ملکی، اور اس کا کیا نام ہے؟ اس بارے میں انہوں نے کچھ نہیں بتایا۔
وہ ورکشاپ کہاں ہے جس میں انہوں نے اس ٹیکنالوجی پر کام کیا؟ اس بارے میں انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی سے متعلق تمام کام مکمل ہو چکے ہیں، تین برس سے ہم سرکار تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم ورکشاپ کے بارے میں انہوں نے کچھ نہیں بتایا۔
مرتضیٰ نے دعویٰ کیا کہ اپنی ٹیکنالوجی کی مدد سے وہ دور سے ہی بتا سکتے ہیں کہ کار میں کتنی مقدار میں اور کس طرح کی اشیاء لے جائی جا رہی ہے۔
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ایک برس قبل ایک خلیجی ملک کے چند افراد ان کے پاس اس ٹیکنالوجی کو مانگنے آئے تھے اور انہیں اس ٹیکنالوجی کے عوض میں ایک لاکھ بیس ہزار کروڑ روپیے کا آفر دے کر گئے تھے۔
جب بی بی سی نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ اپنی اس ٹیکنالوجی کو کیمرے کے سامنے پیش کر سکتے ہیں؟ انہوں نے ایسا نہ کر سکتے کی تکنیکی وجوہات بتاتے ہوئے انکار کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’میں یہ ٹیکنالوجی 25اکتوبر 2018 کو میں سٹیمپ پیپر پر وزیر اعظم کے نام ٹرانسفر کر چکا ہوں۔ اس لیے رازداری کے باعث میں اس ٹیکنالوجی کو پہلے انڈین حکومت کو دکھانا چاہوں گا۔‘
انہوں نے ٹرانسفر کے دستاویزات بھی بی بی سی کو دکھانے نے انکار کر دیا۔
اس بات چیت کے اختتام میں مرتضیٰ علی نے کہا کہ اب یہ حکومت کو طے کرنا ہے کہ وہ انہیں ملاقات کے لیے کب بلائے گی۔ اس ملاقات میں وہ عطیہ کی رقم وزیر اعظم کو دیں گے۔
تاہم وزیر اعظم کے دفتر کے ایک اعلیٰ اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ مرتضیٰ علی نے عطیے کی پیشکش کا ائی میل بھیجا تھا۔ انہوں نے وزیر اعظم سے ملنے کا وقت بھی مانگا تھا، وہ چاہتے ہیں کہ عطیے کی رقم کا چیک وہ خود وزیر اعظم کو دیں۔
انہوں نے بتایا کہ دفتر کے پروٹوکال کا خیال رکھتے ہوئے وزیر اعظم کے ایپائنٹمینٹ کے محکمے نے انہیں فنڈ سیکشن سے بات کرنے کا مشورہ دیا تھا جہاں وہ بغیر کسی شرائط والا عطیہ دے سکتے ہیں۔‘
فنڈ ڈیپارٹمینٹ کے نائب سکریٹری اگنی کمار داس نے بی بی سی کو بتایا کہ فون پر مرتضیٰ نے 110کروڑ روپیے عطیہ دینے کی بات کہی تھی۔ وہ اپنی کسی ریسرچ کے دستاویز بھی ہمیں دینا چاہتے تھے۔ ہم نے ان سے کہا تھا کہ وہ دفتر آ کر اپنے دستاویز جمع کروا دیں۔ لیکن دستاویز آئے اور نہ ہی رقم۔