ETV Bharat / bharat

یوم مزدور کا تاریخی پس منظر

یوروپ اور روس کے محنت کشوں نے دس گھنٹے کام کرنے کی تحریک کا آغاز کیا لیکن سرمایہ دار اور جاگیر دار حکومتیں مزدوروں کی ہر جائز جدوجہد کو خلاف ضابطہ قرار دے کر ہمیشہ کے لیے دبانے کی کوشش کی۔

یوم مزدور کا تاریخی پس منظر
author img

By

Published : May 1, 2019, 11:27 AM IST

یوم مزدور کسی مذہب، قوم، ذات، ملک، خطے یا پھر کسی گروہ کا دن نہیں بلکہ یہ ایک طبقے کاد ن ہے، وہ طبقہ جو دنیا کے ہر خطے میں اپنی محنت سے زندگی کو روشن اور امر کرتا ہے، کرتا رہے گا۔ایک ایسا طبقہ جس کی محنت سے کارخانۂ حیات کے کل پرزے چل رہےہیں۔

یکم مئی مزدوروں کا عالمی دن ہے۔ اس دن اسکول، کالج، یونیورسٹیز، سرکاری دفاتر، ادارے، مارکٹیں اور دکانیں غرضیکہ تمام سرکاری وغیر سرکاری ادارے بند ہوتے ہیں۔ شدت کی مگری اور تیز دھوپ میں جلسے جلوس ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ کیونکہ یہ محنت کشوں کا عالمی دن ہے۔ یہ معماروں کا دن ہے، کسانو ں کا دن ہے اور مزدوروں کا دن ہے۔ تمام مزدور اسی دن فیکٹریوں اور ملوں کو بند کرکے جلوس کی شکل میں سڑک پرآجاتے ہیں۔

حصول حقوق کے لیے مزدو راپنا حق مانگتے ہیں اور مالک ومزدور کے مابین قربت رکھنے کے لیے اسے رائج دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں مزدور کو ایک خاص مقام حاصل ہے مزدور کی اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل ادا کرنے کا درس ہے۔

یکم مئی کی حقیقت کیا ہے؟
کہا جاتا ہے کہ انیسویں صدی کے نصف میں روس میں مزدوروں سے روزانہ انیس بیس گھنٹے کام لیا جاتا تھا اورمزدوری انتہائی قلیل تھی کام اتنا زیادہ ہوتا تھا کہ دو افراد سے اسے پورا کرنا ناممکن تھا۔ کاشتکاری ،فکٹریوں اور کپڑا بننے والے مزدوروں کی عورتیں اور بچے اجرت زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے فاقہ کشی اور عمدہ لباس کے لیے ترستے تھے۔

اس زمانہ میں فیکٹری کے کسی حصے میں آگ لگ جاتے تو مزدور جل کرراکھ ہوجاتے تو ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ سرمایہ دار یہ کہتے ہوئے نظرانداز کردیتے کہ '' مزدوری کرتے وقت ایسے حادثات ہوجایا ہی کرتے ہیں۔''
اوقات کار کا تعین نہ ہونے کے سبب امریکہ میں بھی مزدوروں سے 16-16 گھنٹے کام لیا جانے لگا۔ امریکہ اور روس کی متمدن تہذیب کا یہ حال تھا کہ وہاں بیل کی طرح مزدور کو مشین چلانے والا ترقی یافتہ جانور سمجھا جاتا تھا اور فکٹریوں میں کام کرنے والے غلام سمجھے جاتے تھے ۔

یوروپ اور روس کے محنت کشوں نے دس گھنٹے کام کرنے کی تحریک کا آغاز کیا لیکن سرمایہ دار اور جاگیر دار حکومتیں مزدوروں کی ہر جائز جدوجہد کو خلاف ضابطہ قرار دے کر ہمیشہ کے لیے دبانے کی کوشش کی۔ چنانچہ اس تحریک کو پوری قوت اور بے دردی سے کچل دیا گیا۔

پھر دوسری مرتبہ امریکی مزدوروں نے یکم مئی 1886 میں بے روزگاری اور سرمایہ داروں کے مظالم کے خلاف ہڑتال کا اعلان کردیا۔ اس مرتبہ مزدور ناراض تھے اور امریکہ کے صنعتی شہر شکاگو میں فیکٹریاں اور کارخانے بند ہوگئے۔ کالے اور گورے تمام مزدور امریکی قانون کو برا بھلا کہہ رہے تھے ۔ مزدور نعرے لگارہے تھے'اوقات کار میں کمی کرو اتنی اجرت دو کہ زندہ رہ سکیں'

ہڑتال کا آغاز یکم مئی سے ہوا اور 3 مئی تک جاری ری۔ پولیس نے سرمایہ داروں کے حکم سے ہڑتالی مزدوروں پر اندھا دھند گولیاں چلادیں کثیر تعداد میں مزدور ہلاک ہوگئے۔

4 مئی کو محنت کشوں نے ہلاک ہونے والوں کے غم میں ایک اور جلوس نکالا۔ مزدوروں کی ایک بڑی تعداد شکاگو مارکیٹ کے چوراہے میں جمع ہوگئی۔

اس مرتبہ پولیس اور فوج نے مشترکہ حملہ کیا۔ سڑکیںں اور دیواریں مزدوروں کے خون سے سرخ ہوگئیں۔ اپنے مطالبات تسلیم کرانے کے لیے جو انہوں نے سفید پرچم اٹھارکھے تھے سرخ ہوگئے۔ بعض نے اپنی قمیض پھاڑ کر اپنے بھائیوں کے سرخ خون سے رنگ کے پرچم بنالے اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے صدا بلند کی تھی اس کے جرم میں نہ صرف ان کے گولیوں کا نشانہ بننا پڑابلکہ وہ تختہ دار پر بھی کھینچے گئے۔

مزدور تحریک کی قیادت کرنے والے مزدور رہنماؤں کو گرفتار کرلیا گیا۔سب کو بے دردی سے سولی پر چڑھادیا گیا۔

آج دنیا کے مختلف ممالک میں اس واقعہ کی یاد میں 'یوم مزدور' منایا جاتا ہے جس کا آغاز 1886 میں امریکہ کے شہر شکاگو سے ہوا۔ اس سے قبل اس کا وجود نہیں تھ۔ اس دن نے امریکی دہشت گردی اور ظلم کے نتیجہ میں جنم لیا۔

آج عالمی پیمانے پر لیبر ڈے یعنی یوم مزدور منایا جارہا ہے۔ اس دن سے ہی دنیا کے مزدوروں کے بے مدت کام کے گھنٹوں کو بدل کر آٹھ گھنٹے کیا گیا تھا۔

بھارت ہی نہیں دنیا کے تقریباً 80 ممالک میں اس دن قومی چھٹی کا دن ہوتا ہے۔

مزدور طبقے اس دن پر متعدد مقامات پر بڑی بڑی ریلیوں کا انعقاد کرتے ہیں۔
آج کا دن بھارت کے ان سبھی مزدوروں کا اہم دن ہے جنہوں نے اس وقت سنگھرش کیا جب ہمارے ملک پر انگریزوں کا قبضہ تھا اس کے ساتھ ہی اپنے کام کا بہترین مظاہرہ کیا۔

یوم مئی کا پیغام یہ ہے کہ بربادی محنت کش طبقے کا مقدر نہیں ہے۔ اس نظام کے جبر سے نجات اس کے خلاف لڑائی اور بغاوت سے ہی ممکن ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ محنت کشوں نے تمام حقوق لڑکر ہی حاصل کیے ہیں، مصلحت اور دعاؤں سے خیرات ملتی ہے، حق نہیں۔ آج تو اس خیرات کی گنجائش بھی اس نظام میں نہیں ہے۔ حق چھیننا پڑتا ہے، وحشت اور اذیت کے اس سماج میں زندہ رہنے کے لیے لڑنا پڑتا ہے۔

یوم مزدور کسی مذہب، قوم، ذات، ملک، خطے یا پھر کسی گروہ کا دن نہیں بلکہ یہ ایک طبقے کاد ن ہے، وہ طبقہ جو دنیا کے ہر خطے میں اپنی محنت سے زندگی کو روشن اور امر کرتا ہے، کرتا رہے گا۔ایک ایسا طبقہ جس کی محنت سے کارخانۂ حیات کے کل پرزے چل رہےہیں۔

یکم مئی مزدوروں کا عالمی دن ہے۔ اس دن اسکول، کالج، یونیورسٹیز، سرکاری دفاتر، ادارے، مارکٹیں اور دکانیں غرضیکہ تمام سرکاری وغیر سرکاری ادارے بند ہوتے ہیں۔ شدت کی مگری اور تیز دھوپ میں جلسے جلوس ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ کیونکہ یہ محنت کشوں کا عالمی دن ہے۔ یہ معماروں کا دن ہے، کسانو ں کا دن ہے اور مزدوروں کا دن ہے۔ تمام مزدور اسی دن فیکٹریوں اور ملوں کو بند کرکے جلوس کی شکل میں سڑک پرآجاتے ہیں۔

حصول حقوق کے لیے مزدو راپنا حق مانگتے ہیں اور مالک ومزدور کے مابین قربت رکھنے کے لیے اسے رائج دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں مزدور کو ایک خاص مقام حاصل ہے مزدور کی اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل ادا کرنے کا درس ہے۔

یکم مئی کی حقیقت کیا ہے؟
کہا جاتا ہے کہ انیسویں صدی کے نصف میں روس میں مزدوروں سے روزانہ انیس بیس گھنٹے کام لیا جاتا تھا اورمزدوری انتہائی قلیل تھی کام اتنا زیادہ ہوتا تھا کہ دو افراد سے اسے پورا کرنا ناممکن تھا۔ کاشتکاری ،فکٹریوں اور کپڑا بننے والے مزدوروں کی عورتیں اور بچے اجرت زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے فاقہ کشی اور عمدہ لباس کے لیے ترستے تھے۔

اس زمانہ میں فیکٹری کے کسی حصے میں آگ لگ جاتے تو مزدور جل کرراکھ ہوجاتے تو ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ سرمایہ دار یہ کہتے ہوئے نظرانداز کردیتے کہ '' مزدوری کرتے وقت ایسے حادثات ہوجایا ہی کرتے ہیں۔''
اوقات کار کا تعین نہ ہونے کے سبب امریکہ میں بھی مزدوروں سے 16-16 گھنٹے کام لیا جانے لگا۔ امریکہ اور روس کی متمدن تہذیب کا یہ حال تھا کہ وہاں بیل کی طرح مزدور کو مشین چلانے والا ترقی یافتہ جانور سمجھا جاتا تھا اور فکٹریوں میں کام کرنے والے غلام سمجھے جاتے تھے ۔

یوروپ اور روس کے محنت کشوں نے دس گھنٹے کام کرنے کی تحریک کا آغاز کیا لیکن سرمایہ دار اور جاگیر دار حکومتیں مزدوروں کی ہر جائز جدوجہد کو خلاف ضابطہ قرار دے کر ہمیشہ کے لیے دبانے کی کوشش کی۔ چنانچہ اس تحریک کو پوری قوت اور بے دردی سے کچل دیا گیا۔

پھر دوسری مرتبہ امریکی مزدوروں نے یکم مئی 1886 میں بے روزگاری اور سرمایہ داروں کے مظالم کے خلاف ہڑتال کا اعلان کردیا۔ اس مرتبہ مزدور ناراض تھے اور امریکہ کے صنعتی شہر شکاگو میں فیکٹریاں اور کارخانے بند ہوگئے۔ کالے اور گورے تمام مزدور امریکی قانون کو برا بھلا کہہ رہے تھے ۔ مزدور نعرے لگارہے تھے'اوقات کار میں کمی کرو اتنی اجرت دو کہ زندہ رہ سکیں'

ہڑتال کا آغاز یکم مئی سے ہوا اور 3 مئی تک جاری ری۔ پولیس نے سرمایہ داروں کے حکم سے ہڑتالی مزدوروں پر اندھا دھند گولیاں چلادیں کثیر تعداد میں مزدور ہلاک ہوگئے۔

4 مئی کو محنت کشوں نے ہلاک ہونے والوں کے غم میں ایک اور جلوس نکالا۔ مزدوروں کی ایک بڑی تعداد شکاگو مارکیٹ کے چوراہے میں جمع ہوگئی۔

اس مرتبہ پولیس اور فوج نے مشترکہ حملہ کیا۔ سڑکیںں اور دیواریں مزدوروں کے خون سے سرخ ہوگئیں۔ اپنے مطالبات تسلیم کرانے کے لیے جو انہوں نے سفید پرچم اٹھارکھے تھے سرخ ہوگئے۔ بعض نے اپنی قمیض پھاڑ کر اپنے بھائیوں کے سرخ خون سے رنگ کے پرچم بنالے اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے صدا بلند کی تھی اس کے جرم میں نہ صرف ان کے گولیوں کا نشانہ بننا پڑابلکہ وہ تختہ دار پر بھی کھینچے گئے۔

مزدور تحریک کی قیادت کرنے والے مزدور رہنماؤں کو گرفتار کرلیا گیا۔سب کو بے دردی سے سولی پر چڑھادیا گیا۔

آج دنیا کے مختلف ممالک میں اس واقعہ کی یاد میں 'یوم مزدور' منایا جاتا ہے جس کا آغاز 1886 میں امریکہ کے شہر شکاگو سے ہوا۔ اس سے قبل اس کا وجود نہیں تھ۔ اس دن نے امریکی دہشت گردی اور ظلم کے نتیجہ میں جنم لیا۔

آج عالمی پیمانے پر لیبر ڈے یعنی یوم مزدور منایا جارہا ہے۔ اس دن سے ہی دنیا کے مزدوروں کے بے مدت کام کے گھنٹوں کو بدل کر آٹھ گھنٹے کیا گیا تھا۔

بھارت ہی نہیں دنیا کے تقریباً 80 ممالک میں اس دن قومی چھٹی کا دن ہوتا ہے۔

مزدور طبقے اس دن پر متعدد مقامات پر بڑی بڑی ریلیوں کا انعقاد کرتے ہیں۔
آج کا دن بھارت کے ان سبھی مزدوروں کا اہم دن ہے جنہوں نے اس وقت سنگھرش کیا جب ہمارے ملک پر انگریزوں کا قبضہ تھا اس کے ساتھ ہی اپنے کام کا بہترین مظاہرہ کیا۔

یوم مئی کا پیغام یہ ہے کہ بربادی محنت کش طبقے کا مقدر نہیں ہے۔ اس نظام کے جبر سے نجات اس کے خلاف لڑائی اور بغاوت سے ہی ممکن ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ محنت کشوں نے تمام حقوق لڑکر ہی حاصل کیے ہیں، مصلحت اور دعاؤں سے خیرات ملتی ہے، حق نہیں۔ آج تو اس خیرات کی گنجائش بھی اس نظام میں نہیں ہے۔ حق چھیننا پڑتا ہے، وحشت اور اذیت کے اس سماج میں زندہ رہنے کے لیے لڑنا پڑتا ہے۔

Intro:Body:

mufeez


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.