ETV Bharat / bharat

ہجومی تشدد کے خلاف قانون بنانے میں مودی حکومت کی دلچسپی نہیں - مودی حکومت

وزیر داخلہ امت شاہ نے ہجومی تشدد کے خلاف قانون بنانے کی سفارش کا اعتراف کیا تاہم قانون سازی کے سوال کا جواب گول کر گئے۔

وزیر داخلہ امت شاہ
author img

By

Published : Nov 19, 2019, 3:17 PM IST

نئی دہلی ملک بھر میں ہجومی تشدد کی خوفناک وارداتوں پر قابو پانے کے لیے عدالت عظمی نے گزشتہ سال 17 جولائی کو مودی حکومت کو ہجومی تشدد مخالف قانون سازی کی ہدایت دی تھی، جس پر ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی اور اب مودی حکومت صاف صاف اشارہ دیرہی ہے کہ اس طرح کا کوئی قانون بنانے کی حکومت کی کوئی نیت نہیں۔

خود وزیر داخلہ امت شاہ نے آج پارلیمنٹ میں تحریری جواب داخل کرکے یہ تو اعتراف کیا کہ عدالت عظمی نے قانون بنانے کی سفارش کی تھی، مگر اس سفارش پر وزارت داخلہ نے کیا کیا؟ اس سوال کو پوری طرح گول کر دیا۔

دراصل تمل ناڈو سے سی پی آئی کے رکن پارلیمنٹ ایم سیلواراج اور اسی ریاست سے رکن پارلیمنٹ کے سبرایان نے پارلیمنٹ میں تحریری سوال داخل کر کے پوچھا تھا کہ کیا عدالت نے ہجومی تشدد کے خلاف قانون سازی کی کوئی سفارش یا ہدایت جاری کی تھی؟ اور اگر کی تھی تو اس پر کیا عمل درآمدی ہوئی؟

انہوں نے اپنے سوال میں یہ بھی پوچھا تھا کہ کیا یہ صحیح ہے کہ کئی ریاستوں نے ہجومی تشدد کو غیر ضمانتی جرم قرار دینے اور مجرم کے لئے تاحیات قید کا قانون بنایا ہے؟ جس کے جواب میں وزیر داخلہ امت شاہ نے 17 جولائی 2018 کے عدالت کے فیصلہ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ اعتراف کیا کہ اس تعلق سے ریاستی پولیس کو کئی ہداہتیں جاری کئی گئیں، جس میں مرکزی حکومت کے ذریعہ آڈیو اور ویڈیو بیداری کی مہم بھی شامل ہے، جسے مرکزی حکومت نے انجام دیا۔

اسی فیصلہ میں پارلیمنٹ کو یہ کہا گیا تھا کہ وہ ہجومی تشدد کے خلاف قانون بنائے۔ وزیر داخلہ امت شاہ کے جواب کے مطابق عدالت کے فیصلہ کے مدنظر حکومت ہند نے کئی اقدامات کئے۔

ریاستوں کو ہداہتیں جاری کی گئیں اور بیداری مہم بھی چلائی گئی۔ قانون بنانے کی کوشش کی گئی یا نہیں، یہ جواب موصوف وزیر صاف گول کر گئے۔ وزیر داخلہ نے فراہم کردہ اطلاعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اب تک دو اسمبلیوں (منی پور اور راجستھان) نے ہجومی تشدد کے خلاف دو بل منظور کئے گئے ہیں، جسے گورنر نے مرکزی حکومت کی متعلقہ وزارتوں سے مشاورت کے لئے محفوظ رکھا گیا ہے۔

نئی دہلی ملک بھر میں ہجومی تشدد کی خوفناک وارداتوں پر قابو پانے کے لیے عدالت عظمی نے گزشتہ سال 17 جولائی کو مودی حکومت کو ہجومی تشدد مخالف قانون سازی کی ہدایت دی تھی، جس پر ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی اور اب مودی حکومت صاف صاف اشارہ دیرہی ہے کہ اس طرح کا کوئی قانون بنانے کی حکومت کی کوئی نیت نہیں۔

خود وزیر داخلہ امت شاہ نے آج پارلیمنٹ میں تحریری جواب داخل کرکے یہ تو اعتراف کیا کہ عدالت عظمی نے قانون بنانے کی سفارش کی تھی، مگر اس سفارش پر وزارت داخلہ نے کیا کیا؟ اس سوال کو پوری طرح گول کر دیا۔

دراصل تمل ناڈو سے سی پی آئی کے رکن پارلیمنٹ ایم سیلواراج اور اسی ریاست سے رکن پارلیمنٹ کے سبرایان نے پارلیمنٹ میں تحریری سوال داخل کر کے پوچھا تھا کہ کیا عدالت نے ہجومی تشدد کے خلاف قانون سازی کی کوئی سفارش یا ہدایت جاری کی تھی؟ اور اگر کی تھی تو اس پر کیا عمل درآمدی ہوئی؟

انہوں نے اپنے سوال میں یہ بھی پوچھا تھا کہ کیا یہ صحیح ہے کہ کئی ریاستوں نے ہجومی تشدد کو غیر ضمانتی جرم قرار دینے اور مجرم کے لئے تاحیات قید کا قانون بنایا ہے؟ جس کے جواب میں وزیر داخلہ امت شاہ نے 17 جولائی 2018 کے عدالت کے فیصلہ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ اعتراف کیا کہ اس تعلق سے ریاستی پولیس کو کئی ہداہتیں جاری کئی گئیں، جس میں مرکزی حکومت کے ذریعہ آڈیو اور ویڈیو بیداری کی مہم بھی شامل ہے، جسے مرکزی حکومت نے انجام دیا۔

اسی فیصلہ میں پارلیمنٹ کو یہ کہا گیا تھا کہ وہ ہجومی تشدد کے خلاف قانون بنائے۔ وزیر داخلہ امت شاہ کے جواب کے مطابق عدالت کے فیصلہ کے مدنظر حکومت ہند نے کئی اقدامات کئے۔

ریاستوں کو ہداہتیں جاری کی گئیں اور بیداری مہم بھی چلائی گئی۔ قانون بنانے کی کوشش کی گئی یا نہیں، یہ جواب موصوف وزیر صاف گول کر گئے۔ وزیر داخلہ نے فراہم کردہ اطلاعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اب تک دو اسمبلیوں (منی پور اور راجستھان) نے ہجومی تشدد کے خلاف دو بل منظور کئے گئے ہیں، جسے گورنر نے مرکزی حکومت کی متعلقہ وزارتوں سے مشاورت کے لئے محفوظ رکھا گیا ہے۔

Intro:breaking: ہجومی تشدد کے قانون میں مودی حکومت کی دلچسپی نہیں وزیر داخلہ امت شاہ نے ہجومی تشدد کے خلاف قانون بنانے کی سفارش کا اعتراف کیا تاہم قانون سازی کے سوال کا جواب گول کر گئے نئی دہلی ملک بھر میں ہجومی تشدد کی خوفناک وارداتوں پر قابو پانے کے لیے عدالت عظمی نے گزشتہ سال 17 جولائی کو مودی حکومت کو ہجومی تشدد مخالف قانون سازی کی ہدایت دی تھی، جس پر ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی اور اب مودی حکومت صاف صاف اشارہ دیرہی ہے کہ اس طرح کا کوئی قانون بنانے کی حکومت کی کوئی نیت نہیں۔ خود وزیر داخلہ امت شاہ نے آج پارلیمنٹ میں تحریری جواب داخل کرکے یہ تو اعتراف کیا کہ عدالت عظمی نے قانون بنانے کی سفارش کی تھی، مگر اس سفارش پر وزارت داخلہ نے کیا کیا؟ اس سوال کو پوری طرح گول کر دیا۔ دراصل تمل ناڈو سے سی پی آئی کے رکن پارلیمنٹ ایم سیلواراج اور اسی ریاست سے رکن پارلیمنٹ کے سبرایان نے پارلیمنٹ میں تحریری سوال داخل کر کے پوچھا تھا کہ کیا عدالت نے ہجومی تشدد کے خلاف قانون سازی کی کوئی سفارش یا ہدایت جاری کی تھی؟ اور اگر کی تھی تو اس پر کیا عمل درآمدی ہوئی؟ انہوں نے اپنے سوال میں یہ بھی پوچھا تھا کہ کیا یہ صحیح ہے کہ کئی ریاستوں نے ہجومی تشدد کو غیر ضمانتی جرم قرار دینے اور مجرم کے لئے تاحیات قید کا قانون بنایا ہے؟ جس کے جواب میں وزیر داخلہ امت شاہ نے 17 جولائی 2018 کے عدالت کے فیصلہ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ اعتراف کیا کہ اس تعلق سے ریاستی پولیس کو کئی ہداہتیں جاری کئی گئیں، جس میں مرکزی حکومت کے ذریعہ آڈیو اور ویڈیو بیداری کی مہم بھی شامل ہے، جسے مرکزی حکومت نے انجام دیا۔ اسی فیصلہ میں پارلیمنٹ کو یہ کہا گیا تھا کہ وہ ہجومی تشدد کے خلاف قانون بنائے۔ وزیر داخلہ امت شاہ کے جواب کے مطابق عدالت کے فیصلہ کے مدنظر حکومت ہند نے کئی اقدامات کئے۔ ریاستوں کو ہداہتیں جاری کی گئیں اور بیداری مہم بھی چلائی گئی۔ قانون بنانے کی کوشش کی گئی یا نہیں، یہ جواب موصوف وزیر صاف گول کر گئے۔ وزیر داخلہ نے فراہم کردہ اطلاعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اب تک دو اسمبلیوں (منی پور اور راجستھان) نے ہجومی تشدد کے خلاف دو بل منظور کئے گئے ہیں، جسے گورنر نے مرکزی حکومت کی متعلقہ وزارتوں سے مشاورت کے لئے محفوظ رکھا گیا ہے۔


Body:@


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.