خواتین نے کہا کہ شاہین باغ خواتین مظاہرہ کی وجہ سے ہر جگہ رکاوٹ کھڑی کرنے کے باوجود آج ملک میں سیکڑوں شاہین باغ بن چکے ہیں اور حکومت اس سے گھبرا گئی ہے اور قانون کو واپس لینے اور مظاہرین کی بات سننے کے بجائے میڈیا کے ذریعہ ہمارا ٹرائل کیا جارہا ہے اور اپنے کارندوں کو بھیج کر شاہین باغ خاتون مظاہرین کے بارے میں طرح طرح باتیں کی جارہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پہلے حکومت نے مختلف طرح سے احتجاج ختم کرانے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب نہ ہوئی تو حکومت میڈیا کے ذریعہ اوچھی حرکت پر اترآئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا یا حکومت ہماری پریشانی سننے کے بجائے یہاں بریانی، پانچ سو روپے اور دیگر سطحی باتیں کررہی ہے جبکہ شاہین باغ خاتون مظاہرین نے دنیا کے سامنے ایک مثال پیش کی ہے کہ اس طرح بھی مظاہرہ کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو بھی صحیح بات کرنا چاہے اس کا خیرمقدم ہے اور یہاں دنیا بھر کے میڈیا والے آتے ہیں لیکن کچھ ایسے میڈیا والے بھی جو صرف ہمیں بدنام کرنے آتے ہیں۔
وزیر داخلہ امت شاہ کے اس بیان پر کہ زور سے اس طرح بٹن دباَؤ کے اس کا کرنٹ شاہین تک پہنچے، پر ایک خاتون (ہندوستانی)نے کہا کہ اس طرح کی سوچ پر صرف افسوس کیا جاسکتا ہے اور وہ اس سے بہتر کچھ سوچ بھی نہیں سکتے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ان کی حالت پر اور ان کی سوچ پر ترس آتا ہے غصہ نہیں لیکن یہ کس قدر افسوسناک بات ہے کہ ملک کا وزیر داخلہ اس طرح کا بیان دے رہا ہے۔
ایک دیگر خاتون مظاہرین نے روی شنکر کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ان کو ہر جگہ ہندو مسلمان نظر آتا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے سے لڑانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش ہمیشہ سے ہوتی رہی ہے اور ان کے مظاہرے کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور ایسے لوگ مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال کھڑا کر رہے ہیں جن لوگوں نے ملک کی آزادی میں کوئی حصہ نہیں لیا۔
خواتین کا یہ بھی کہنا ہے کہ شاہین باغ نے گنگا جمنی تہذیب اور بھارت کی مشترکہ ثقافت کی بہترین مثال پیش کی ہے اور یہ بھی کہا کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ ایک پلیٹ میں کھانا کھاتے ہیں۔
سماجی کارکن اور شاہین باغ مظاہرہ میں شروع سے شریک ہونے والی ملکہ نے بی جے پی رہنماؤں کے شاہین باغ معاملے پر الٹے سیدھے بیان کے بارے میں بتایا کہ ان میں کسی بھی مسئلہ کا سامنا کرنا کی ہمت نہیں ہے اس لیے وہ شاہین باغ خاتون مظاہرین کے تعلق سے غلط اور ہتک آمیز بیان بازی کر رہے ہیں۔
جامعہ میں گولی چلنے کی وجہ سے شاہین باغ خاتون مظاہرین کافی محتاط ہیں، مظاہرین شامل ہیں خاتون کارکن اور مرد باہر سے آنے والوں کی تلاشی بھی لے رہے ہیں تاکہ یہاں بھی کوئی انہونی نہ ہوجائے۔
ان لوگوں کا الزام ہے کہ پولیس اور حکومت مظاہرے کو سبوتاژ کرنے کے لیے کچھ بھی کرواسکتی ہے۔ اس کے علاوہ شاہین باغ خاتون مظاہرین بابائے قوم مہاتما گاندھی کا یوم شہادت منایا اور اس موقع پر ان کے محبوب بھجن رگھوپتی راگھو راجا رام بھی گایا گیا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کی موجودگی میں گولی چلنے سے سنسی پھیل گئی اور یہ لوگ ایک لڑکے کے ہاتھ میں لگی۔ سوشل میڈیا پر پستول لہراتا نوجوان کا نام کے ساتھ فوٹو وائرل ہورہا ہے۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا نے جمعرات کوبابائے قوم مہاتما گاندھی کی سمادھی راج گھاٹ جانے کیلیے جیسے ہی مارچ نکالا کیمپس سے چند قدم کے فاصلہ پر پولیس کے سامنے اچانک ایک شخص پستول لہراتے ہوئے آیا اور بھیڑ پر گولی چلادی جس سے ایک طالب علم زخمی ہوگیا۔
پولیس نے بتایا ہے کہ گولی چلانے والے شخص کو حراست میں لیکر پوچھ تاچھ کی جارہی ہے۔جانچ کے بعد ہی واضح ہوگا کہ گولی چلانے والا شخص کہاں سے آیا۔پولیس فی الحال گولی چلانے والے کی شناخت ظاہر گرنے سے گریز کررہی ہے۔
جامعہ کی ایک ریسرچ اسکالر صفورہ نے کہا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی طرف سے بھیج کر یہاں کے پرامن ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔پولیس کے سامنے نوجوان نے جس طرح بے خوف ہوکر گولی چلائی ہے، اس سے پولیس کی کارکردگی پر کئی طرح کے سوال اٹھتے ہیں۔
گولی جس طالب علم کو لگی ہے اس کا نام شاداب ہے وہ جامعہ ماس کمیونکیشن کا طالب علم ہے اور اسے ہولی فیملی اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔اس واقعہ کے بعد طلبا نے کچھ دیر کے لیے مارچ روک دیا اور اس کے بعد مارچ آگے بڑھا،جسے ہولی فیملی کے پاس روک دیا گیا۔طلبا ہولی فیملی کے پاس سڑک پر بیٹھ کر مظاہرہ کررہے ہیں اور دہلی پولیس کے خلاف نعرے بازی کررہے ہیں۔
جامعہ ٹیچرز ایسوسی ایشن نے اس واقعہ کی سخت مذمت کی ہے۔انھوں نے کہاکہ پولیس کے سامنے جس طرح کا واقعہ پیش آیا ہے وہ حیران کن ہے۔