ETV Bharat / bharat

'میڈیا کا ایک طبقہ ہمارے پُرامن مظاہرے کو بدنام کر رہا ہے'

قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ خاتون مظاہرین نے میڈیا کے ایک طبقے کے تئیں زبردست غضہ اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ میڈیا کا ایک طبقہ نہ صرف ہمارے پرامن مظاہرے کو بدنام کر رہا ہے بلکہ ہمیں ذہنی تکلیف بھی دے رہا ہے۔

شاہین باغ خاتون مظاہرین
شاہین باغ خاتون مظاہرین
author img

By

Published : Jan 30, 2020, 8:37 PM IST

Updated : Feb 28, 2020, 2:01 PM IST

خواتین نے کہا کہ شاہین باغ خواتین مظاہرہ کی وجہ سے ہر جگہ رکاوٹ کھڑی کرنے کے باوجود آج ملک میں سیکڑوں شاہین باغ بن چکے ہیں اور حکومت اس سے گھبرا گئی ہے اور قانون کو واپس لینے اور مظاہرین کی بات سننے کے بجائے میڈیا کے ذریعہ ہمارا ٹرائل کیا جارہا ہے اور اپنے کارندوں کو بھیج کر شاہین باغ خاتون مظاہرین کے بارے میں طرح طرح باتیں کی جارہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پہلے حکومت نے مختلف طرح سے احتجاج ختم کرانے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب نہ ہوئی تو حکومت میڈیا کے ذریعہ اوچھی حرکت پر اترآئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا یا حکومت ہماری پریشانی سننے کے بجائے یہاں بریانی، پانچ سو روپے اور دیگر سطحی باتیں کررہی ہے جبکہ شاہین باغ خاتون مظاہرین نے دنیا کے سامنے ایک مثال پیش کی ہے کہ اس طرح بھی مظاہرہ کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو بھی صحیح بات کرنا چاہے اس کا خیرمقدم ہے اور یہاں دنیا بھر کے میڈیا والے آتے ہیں لیکن کچھ ایسے میڈیا والے بھی جو صرف ہمیں بدنام کرنے آتے ہیں۔

وزیر داخلہ امت شاہ کے اس بیان پر کہ زور سے اس طرح بٹن دباَؤ کے اس کا کرنٹ شاہین تک پہنچے، پر ایک خاتون (ہندوستانی)نے کہا کہ اس طرح کی سوچ پر صرف افسوس کیا جاسکتا ہے اور وہ اس سے بہتر کچھ سوچ بھی نہیں سکتے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ان کی حالت پر اور ان کی سوچ پر ترس آتا ہے غصہ نہیں لیکن یہ کس قدر افسوسناک بات ہے کہ ملک کا وزیر داخلہ اس طرح کا بیان دے رہا ہے۔

ایک دیگر خاتون مظاہرین نے روی شنکر کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ان کو ہر جگہ ہندو مسلمان نظر آتا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے سے لڑانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش ہمیشہ سے ہوتی رہی ہے اور ان کے مظاہرے کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور ایسے لوگ مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال کھڑا کر رہے ہیں جن لوگوں نے ملک کی آزادی میں کوئی حصہ نہیں لیا۔

خواتین کا یہ بھی کہنا ہے کہ شاہین باغ نے گنگا جمنی تہذیب اور بھارت کی مشترکہ ثقافت کی بہترین مثال پیش کی ہے اور یہ بھی کہا کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ ایک پلیٹ میں کھانا کھاتے ہیں۔

سماجی کارکن اور شاہین باغ مظاہرہ میں شروع سے شریک ہونے والی ملکہ نے بی جے پی رہنماؤں کے شاہین باغ معاملے پر الٹے سیدھے بیان کے بارے میں بتایا کہ ان میں کسی بھی مسئلہ کا سامنا کرنا کی ہمت نہیں ہے اس لیے وہ شاہین باغ خاتون مظاہرین کے تعلق سے غلط اور ہتک آمیز بیان بازی کر رہے ہیں۔

جامعہ میں گولی چلنے کی وجہ سے شاہین باغ خاتون مظاہرین کافی محتاط ہیں، مظاہرین شامل ہیں خاتون کارکن اور مرد باہر سے آنے والوں کی تلاشی بھی لے رہے ہیں تاکہ یہاں بھی کوئی انہونی نہ ہوجائے۔

ان لوگوں کا الزام ہے کہ پولیس اور حکومت مظاہرے کو سبوتاژ کرنے کے لیے کچھ بھی کرواسکتی ہے۔ اس کے علاوہ شاہین باغ خاتون مظاہرین بابائے قوم مہاتما گاندھی کا یوم شہادت منایا اور اس موقع پر ان کے محبوب بھجن رگھوپتی راگھو راجا رام بھی گایا گیا۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کی موجودگی میں گولی چلنے سے سنسی پھیل گئی اور یہ لوگ ایک لڑکے کے ہاتھ میں لگی۔ سوشل میڈیا پر پستول لہراتا نوجوان کا نام کے ساتھ فوٹو وائرل ہورہا ہے۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا نے جمعرات کوبابائے قوم مہاتما گاندھی کی سمادھی راج گھاٹ جانے کیلیے جیسے ہی مارچ نکالا کیمپس سے چند قدم کے فاصلہ پر پولیس کے سامنے اچانک ایک شخص پستول لہراتے ہوئے آیا اور بھیڑ پر گولی چلادی جس سے ایک طالب علم زخمی ہوگیا۔

پولیس نے بتایا ہے کہ گولی چلانے والے شخص کو حراست میں لیکر پوچھ تاچھ کی جارہی ہے۔جانچ کے بعد ہی واضح ہوگا کہ گولی چلانے والا شخص کہاں سے آیا۔پولیس فی الحال گولی چلانے والے کی شناخت ظاہر گرنے سے گریز کررہی ہے۔

جامعہ کی ایک ریسرچ اسکالر صفورہ نے کہا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی طرف سے بھیج کر یہاں کے پرامن ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔پولیس کے سامنے نوجوان نے جس طرح بے خوف ہوکر گولی چلائی ہے، اس سے پولیس کی کارکردگی پر کئی طرح کے سوال اٹھتے ہیں۔

گولی جس طالب علم کو لگی ہے اس کا نام شاداب ہے وہ جامعہ ماس کمیونکیشن کا طالب علم ہے اور اسے ہولی فیملی اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔اس واقعہ کے بعد طلبا نے کچھ دیر کے لیے مارچ روک دیا اور اس کے بعد مارچ آگے بڑھا،جسے ہولی فیملی کے پاس روک دیا گیا۔طلبا ہولی فیملی کے پاس سڑک پر بیٹھ کر مظاہرہ کررہے ہیں اور دہلی پولیس کے خلاف نعرے بازی کررہے ہیں۔

جامعہ ٹیچرز ایسوسی ایشن نے اس واقعہ کی سخت مذمت کی ہے۔انھوں نے کہاکہ پولیس کے سامنے جس طرح کا واقعہ پیش آیا ہے وہ حیران کن ہے۔

خواتین نے کہا کہ شاہین باغ خواتین مظاہرہ کی وجہ سے ہر جگہ رکاوٹ کھڑی کرنے کے باوجود آج ملک میں سیکڑوں شاہین باغ بن چکے ہیں اور حکومت اس سے گھبرا گئی ہے اور قانون کو واپس لینے اور مظاہرین کی بات سننے کے بجائے میڈیا کے ذریعہ ہمارا ٹرائل کیا جارہا ہے اور اپنے کارندوں کو بھیج کر شاہین باغ خاتون مظاہرین کے بارے میں طرح طرح باتیں کی جارہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پہلے حکومت نے مختلف طرح سے احتجاج ختم کرانے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب نہ ہوئی تو حکومت میڈیا کے ذریعہ اوچھی حرکت پر اترآئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا یا حکومت ہماری پریشانی سننے کے بجائے یہاں بریانی، پانچ سو روپے اور دیگر سطحی باتیں کررہی ہے جبکہ شاہین باغ خاتون مظاہرین نے دنیا کے سامنے ایک مثال پیش کی ہے کہ اس طرح بھی مظاہرہ کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو بھی صحیح بات کرنا چاہے اس کا خیرمقدم ہے اور یہاں دنیا بھر کے میڈیا والے آتے ہیں لیکن کچھ ایسے میڈیا والے بھی جو صرف ہمیں بدنام کرنے آتے ہیں۔

وزیر داخلہ امت شاہ کے اس بیان پر کہ زور سے اس طرح بٹن دباَؤ کے اس کا کرنٹ شاہین تک پہنچے، پر ایک خاتون (ہندوستانی)نے کہا کہ اس طرح کی سوچ پر صرف افسوس کیا جاسکتا ہے اور وہ اس سے بہتر کچھ سوچ بھی نہیں سکتے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ان کی حالت پر اور ان کی سوچ پر ترس آتا ہے غصہ نہیں لیکن یہ کس قدر افسوسناک بات ہے کہ ملک کا وزیر داخلہ اس طرح کا بیان دے رہا ہے۔

ایک دیگر خاتون مظاہرین نے روی شنکر کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ان کو ہر جگہ ہندو مسلمان نظر آتا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے سے لڑانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش ہمیشہ سے ہوتی رہی ہے اور ان کے مظاہرے کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور ایسے لوگ مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال کھڑا کر رہے ہیں جن لوگوں نے ملک کی آزادی میں کوئی حصہ نہیں لیا۔

خواتین کا یہ بھی کہنا ہے کہ شاہین باغ نے گنگا جمنی تہذیب اور بھارت کی مشترکہ ثقافت کی بہترین مثال پیش کی ہے اور یہ بھی کہا کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ ایک پلیٹ میں کھانا کھاتے ہیں۔

سماجی کارکن اور شاہین باغ مظاہرہ میں شروع سے شریک ہونے والی ملکہ نے بی جے پی رہنماؤں کے شاہین باغ معاملے پر الٹے سیدھے بیان کے بارے میں بتایا کہ ان میں کسی بھی مسئلہ کا سامنا کرنا کی ہمت نہیں ہے اس لیے وہ شاہین باغ خاتون مظاہرین کے تعلق سے غلط اور ہتک آمیز بیان بازی کر رہے ہیں۔

جامعہ میں گولی چلنے کی وجہ سے شاہین باغ خاتون مظاہرین کافی محتاط ہیں، مظاہرین شامل ہیں خاتون کارکن اور مرد باہر سے آنے والوں کی تلاشی بھی لے رہے ہیں تاکہ یہاں بھی کوئی انہونی نہ ہوجائے۔

ان لوگوں کا الزام ہے کہ پولیس اور حکومت مظاہرے کو سبوتاژ کرنے کے لیے کچھ بھی کرواسکتی ہے۔ اس کے علاوہ شاہین باغ خاتون مظاہرین بابائے قوم مہاتما گاندھی کا یوم شہادت منایا اور اس موقع پر ان کے محبوب بھجن رگھوپتی راگھو راجا رام بھی گایا گیا۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کی موجودگی میں گولی چلنے سے سنسی پھیل گئی اور یہ لوگ ایک لڑکے کے ہاتھ میں لگی۔ سوشل میڈیا پر پستول لہراتا نوجوان کا نام کے ساتھ فوٹو وائرل ہورہا ہے۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا نے جمعرات کوبابائے قوم مہاتما گاندھی کی سمادھی راج گھاٹ جانے کیلیے جیسے ہی مارچ نکالا کیمپس سے چند قدم کے فاصلہ پر پولیس کے سامنے اچانک ایک شخص پستول لہراتے ہوئے آیا اور بھیڑ پر گولی چلادی جس سے ایک طالب علم زخمی ہوگیا۔

پولیس نے بتایا ہے کہ گولی چلانے والے شخص کو حراست میں لیکر پوچھ تاچھ کی جارہی ہے۔جانچ کے بعد ہی واضح ہوگا کہ گولی چلانے والا شخص کہاں سے آیا۔پولیس فی الحال گولی چلانے والے کی شناخت ظاہر گرنے سے گریز کررہی ہے۔

جامعہ کی ایک ریسرچ اسکالر صفورہ نے کہا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی طرف سے بھیج کر یہاں کے پرامن ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔پولیس کے سامنے نوجوان نے جس طرح بے خوف ہوکر گولی چلائی ہے، اس سے پولیس کی کارکردگی پر کئی طرح کے سوال اٹھتے ہیں۔

گولی جس طالب علم کو لگی ہے اس کا نام شاداب ہے وہ جامعہ ماس کمیونکیشن کا طالب علم ہے اور اسے ہولی فیملی اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔اس واقعہ کے بعد طلبا نے کچھ دیر کے لیے مارچ روک دیا اور اس کے بعد مارچ آگے بڑھا،جسے ہولی فیملی کے پاس روک دیا گیا۔طلبا ہولی فیملی کے پاس سڑک پر بیٹھ کر مظاہرہ کررہے ہیں اور دہلی پولیس کے خلاف نعرے بازی کررہے ہیں۔

جامعہ ٹیچرز ایسوسی ایشن نے اس واقعہ کی سخت مذمت کی ہے۔انھوں نے کہاکہ پولیس کے سامنے جس طرح کا واقعہ پیش آیا ہے وہ حیران کن ہے۔

Intro:Body:

'میڈیا کا ایک طبقہ ہمارے پُرامن مظاہرے کو بدنام کر رہا ہے'





نئی دہلی، 30جنوری (یو این آئی۔ عابد انور) قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ خاتون مظاہرین نے میڈیا کے ایک طبقے کے تئیں زبردست غضہ اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ میڈیا کا ایک طبقہ نہ صرف ہمارے پرامن مظاہرے کو بدنام کر رہا ہے بلکہ ہمیں ’مینٹل ٹارچر‘ بھی کر رہا ہے۔

انہوں نے کہاکہ شاہین باغ خواتین مظاہرہ کی وجہ سے ہر جگہ رکاوٹ کھڑی کرنے کے باوجود آج ملک میں سیکڑوں شاہین باغ چکے ہیں اور حکومت اس سے گھبرا گئی ہے اور قانون کو واپس لینے اور مظاہرین کی بات سننے کے بجائے میڈیا کے ذریعہ ہمارا ٹرائل کیا جارہاہے اور اپنے کارندوں کو بھیج کر شاہین باغ خاتون مظاہرین کے بارے میں طرح طرح باتیں کی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پہلے حکومت مختلف طرح سے احتجاج ختم کرانے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب نہ ہوئی تو حکومت میڈیا کے ذریعہ اوچھی حرکت پر اترآئی ہے۔

انہوں نے کہاکہ میڈیا یا حکومت ہماری پریشانی سننے کے بجائے یہاں بریانی، پانچ سو روپے اور دیگر سطحی باتیں کررہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ شاہین باغ خاتون مظاہرین نے دنیا کے ایک مثال پیش کی ہے اس طرح بھی مظاہرہ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ جو بھی صحیح بات کرنا چاہے اس کا خیرمقدم ہے اور یہاں دنیا بھر کے میڈیا والے آتے ہیں لیکن کچھ ایسے میڈیا والے بھی جو صرف ہمیں بدنام کرنے آتے ہیں۔

وزیر داخلہ امت شاہ کے اس بیان پر کہ زور سے اس طرح بٹن دباَؤ کے اس کا کرنٹ شاہین تک پہنچے، پر ایک خاتون (ہندوستانی)نے کہاکہ اس طرح کی سوچ پر صرف افسوس کیا جاسکتا ہے اور وہ اس سے بہتر کچھ سوچ بھی نہیں سکتے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں ان کی حالت پر اور ان کی سوچ پر ترس آتا ہے.، غصہ نہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ کس قدر افسوسناک بات ہے کہ ملک کا وزیر داخلہ اس طرح کا بیان دے رہا ہے۔

ایک دیگر خاتون مظاہرین نے روی شنکر کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ان کو ہر جگہ ہندو مسلمان نظر آتا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے سے لڑانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش ہمیشہ سے ہوتی رہی ہے اور ان کے مظاہرے کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور ایسے لوگ مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال کھڑا کر رہے ہیں جن لوگوں نے ملک کی آزادی میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ انہوں نے کہاکہ شاہین باغ نے گنگا جمنی تہذیب اور ہندوستان کی مشترکہ ثقافت کی بہترین مثال پیش کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم ہندوؤں کے ساتھ ایک پلیٹ میں کھانا کھاتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں جتنا اعتماد آئین پر ہے یہاں کے قانون پر اتنا اعتماد کو ان کونہیں ہے کیوں کہ ان میں سے کچھ لوگ ہمیشہ آئین کے خلاف کام کرتے نظر آتے ہیں۔

سماجی کارکن اور شاہین باغ مظاہرہ میں شروع سے شریک ہونے والی ملکہ نے بی جے پی لیڈروں کے شاہین باغ معاملے پر الٹے سیدھے بیان کے بارے میں بتایا کہ ان میں کسی بھی مسئلہ کا سامنا کرنا کی ہمت نہیں ہے اس لئے وہ شاہین باغ خاتون مظاہرین کے تعلق سے غلط اور ہتک آمیز بیان بازی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کبھی شاہین باغ خاتون پر پانچ سوروپے لیکر دھرنا دینا کا الزام لگاتی ہے تو جینے کی آزاد ی کو جناح کی آزادی قرار دیتی ہے اور شرجیل امام کے علی گڑھ میں کی گئی تقریر کو شاہین کی تقریر کہہ کر شاہین باغ خاتون مظاہرین کو بدنام کرنے کی کوشش کرتی ہے۔انہوں نے کہاکہ شاہین باغ خاتون مظاہرین کا مطالبہ سننے کے بجائے روز نئے نئے وزیر، لیڈر اور میڈیا کے ایک طبقیے کو میدان میں اتارتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس سے گھٹیا سوچ اور کیا ہوگی۔

جامعہ میں گولی چلنے کی وجہ سے شاہین باغ خاتون مظاہرین کافی محتاط ہیں، مظاہرین شامل ہیں خاتون کارکن اور مرد باہر سے آنے والوں کی تلاشی بھی لے رہے ہیں تاکہ یہاں بھی کوئی انہونی نہ ہوجائے۔ ان لوگوں کا الزام ہے کہ پولیس اور حکومت مظاہرے کو سبوتاژ کرنے کے لئے کچھ بھی کرواسکتی ہے۔ اس کے علاوہ شاہین باغ خاتون مظاہرین بابائے قوم مہاتما گاندھی کے یوم شہادت کو ہیومن بناکر منایا اور اس موقع پر ان کے محبوب بھجن رگھوپتی راگھو راجا رام بھی گایا گیا۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کی موجودگی میں گولی چلنے سے سنسی پھیل گئی اور یہ لوگ ایک لڑکے کے ہاتھ میں لگی۔ سوشل میڈیا پر پستول لہراتا نوجوان کا نام کے ساتھ فوٹو وائرل ہورہا ہے۔یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا نے جمعرات کوبابائے قوم مہاتما گاندھی کی سمادھی راج گھاٹ جانے کیلیے جیسے ہی مارچ نکالا کیمپس سے چند قدم کے فاصلہ پر پولیس کے سامنے اچانک ایک شخص پستول لہراتے ہوئے آیا اور بھیڑ پر گولی چلادی جس سے ایک طالب علم زخمی ہوگیا۔

پولیس نے بتایاہے کہ گولی چلانے والے شخص کو حراست میں لیکر پوچھ تاچھ کی جارہی ہے۔جانچ کے بعد ہی واضح ہوگا کہ گولی چلانے والا شخص کہاں سے آیا۔پولیس فی الحال گولی چلانے والے کی شناخت ظاہر گرنے سے گریز کررہی ہے۔جامعہ کی ایک ریسرچ اسکالر صفورہ نے کہاکہ بی جے پی اور آرایس ایس کی طرف سے بھیج کر یہاں کے پرامن ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔پولیس کے سامنے نوجوان نے جس طرح بے خوف ہوکر گولی چلائی ہے، اس سے پولیس کی کارکردگی پر کئی طرح کے سوال اٹھتے ہیں۔پولیس سے چندقدم کی دوری پر ملزم پستول لہرا تارہااور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔گولی جس طالب علم کو لگی ہے اس کا نام شاداب ہے وہ جامعہ ماس کمیونکیشن کا طالب علم ہے اور اسے ہولی فیملی اسپتال میں داخل کرایاگیاہے۔اس واقعہ کے بعد طلبا نے کچھ دیر کے لیے مارچ روک دیااور اس کے بعد مارچ آگے بڑھا،جسے ہولی فیملی کے پاس روک دیاگیا۔طلبا ہولی فیملی کے پاس سڑک پر بیٹھ کر مظاہرہ کررہے ہیں اور دہلی پولیس کے خلاف نعرے بازی کررہے ہیں۔جامعہ ٹیچرز ایسوسی ایشن نے اس واقعہ کی سخت مذمت کی ہے۔انھوں نے کہاکہ پولیس کے سامنے جس طرح کا واقعہ پیش آیا ہے وہ حیران کن ہے۔

جامعہ کے طلبا 15دسمبر کو ہوئی پولیس کی ظالمانہ کارروائی اور شہریت (ترمیمی)قانون کے خلاف پچھلے ڈیڑھ ماہ سے مظاہرہ کررہے ہیں۔جامعہ کو آڑڈی نیشن کمیٹی کی طرف سے آج راج گھاٹ تک مارچ نکالنے کا نعرہ دیاگیاتھا حالانکہ پولیس نے مارچ نکالنے کی اجازت نہیں دی تھی۔اس واقعہ کے بعد ہزاروں کی تعداد میں طلبا اور مقامی لوگ ہولی فیملی سے جامعہ تک روڈ پر مظاہرہ کر رہے ہیں۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس بربریت کے بعد سے 15دسمبر سے احتجاج جاری ہے اور یہاں بھی 24 گھنٹے کا دھرنا جاری ہے۔۔ قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف جاری مظاہرہ کی تعداد میں ضافہ ہوتا جارہاہے اور اب یہ مظاہرہ دہلی کے بیشتر علاقوں میں پھیل چکا ہے اور یوپی کے سنبھل سے خواتین کے بڑے مظاہرے کی خبر آرہی ہے جہاں ہزاروں خواتین رات دن مظاہرہ کررہی ہیں۔

شاہین باغ کے بعد خوریجی خواتین مظاہرین کا اہم مقام ہے۔ خوریجی خاتون مظاہرین کا انتظام دیکھنے والی سماجی کارکن اور ایڈووکیٹ اور سابق کونسلر عشرت جہاں نے بتایا کہ خوریجی خواتین کا مظاہرہ ہر روز خاص ہورہا ہے اور اہم مقرر اور سماجی سروکار سے منسلک افراد یہاں تشریف لارہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ آج کئی اہم مقررین نے خطاب کیا۔ محترمہ عشرت جہاں نے بتایا کہ ان مقررین نے سی اے اے، این آرسی اور این پی آر کے خلاف احتجاج کی حمایت کرتے ہوئے ان کے نقصانات سے لوگوں کو آگاہ کیا۔دہلی میں اس وقت دہلی میں سیلم پور جعفرآباد، ترکمان گیٹ،بلی ماران، کھجوری، اندر لوک، شاہی عیدگاہ قریش نگر، مالویہ نگر کے حوض رانی، مصطفی آباد، کردم پوری، شاشتری پارک، نور الہی،اوربیری والا باغ، نظام الدین جامع مسجدسمت ملک تقریباً سو سے زائد مقامات پر مظاہرے ہورہے ہیں۔

اترپردیش میں پولیس کے ذریعہ خواتین مظاہرین کو پریشان کرنے کے ان کے گھروں پر دباؤ کے باوجود خواتین نے گھنٹہ گھر میں مظاہرہ کیا اور ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے اپنی موجودگی درج کرائی۔ اترپردیش میں سب سے پہلے الہ آباد کی خواتین نے روشن باغ کے منصور علی پارک میں مورچہ سنبھالا تھا جہاں آج بھی مظاہرہ جاری ہے۔ اس کے بعد کانپور کے چمن گنج میں محمد علی پارک میں خواتین مظاہرہ کررہی ہیں۔ ان مظاہرے کی اہم بات یہ ہے کہ اس کے پس پشت نہ کوئی پارٹی ہے اور نہ ہی کوئی بڑی تنظیم، جو کچھ بھی آتا ہے وہ رضاکارانہ طور پر آتا ہے۔خواتین کا یہ مظاہرہ اترپردیش کے کئی شہروں میں پھیل رہا ہے۔

دہلی کے بعد سب سے زیادہ مظاہرے بہار میں ہورہے ہیں اور ہر روز یہاں ایک نیا شاہین باغ بن رہا ہے اور یہاں شدت سے قومی شہریت قانون، قومی شہری رجسٹر اور قومی آبادی رجسٹر کے خلاف بہارکی خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں اور بہار درجنوں جگہ پر خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں۔ گیا کے شانتی باغ میں گزشتہ 29دسمبر سے خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں اور یہاں خواتین کی بڑی تعداد ہے۔ اس کے بعد سبزی باغ پٹنہ میں خواتین مسلسل مظاہرہ کر رہی ہیں۔ پٹنہ میں ہی ہارون نگر میں خواتین کا مظاہرہ جاری ہے۔ اس کے علاوہ بہار کے مونگیر، مظفرپور، دربھنگہ، مدھوبنی، ارریہ،سیوان، چھپرہ، بہار شریف، جہاں آباد،گوپال گنج، بھینساسر نالندہ، موگلاھار نوادہ، سمستی پور، کشن گنج کے چوڑی پٹی علاقے میں، بیگوسرائے کے لکھمنیا علاقے میں زبردست مظاہرے ہو ہے ہیں اور بہت سے ہندو نوجوان نہ صرف اس قانون کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ بہار کے ہی ضلع سہرسہ کے سمری بختیارپورسب ڈویزن کے رانی باغ خواتین کا بڑا مظاہرہ ہورہا ہے جس میں اہم لوگ خطاب کرنے پہنچ رہے ہیں۔

شاہین باغ،دہلی، جامعہ ملیہ اسلامیہ ’دہلی،۔آرام پارک خوریجی-دہلی ’۔سیلم پور فروٹ مارکیٹ،دہلی،۔جامع مسجد، دہلی،ترکمان گیٹ، دہلی،ترکمان گیٹ دہلی، بلی ماران دہلی، شاشتری پارک دہلی، کردم پوری دہلی، مصطفی آباد دہلی، کھجوری، بیری والا باغ، شاہی عیدگاہ قریش نگر،حضرت نظام الدین،رانی باغ سمری بختیارپورضلع سہرسہ بہار‘۔سبزی باغ پٹنہ - بہار، ہارون نگر،پٹنہ’۔شانتی باغی گیا بہار،۔مظفرپور بہار،۔ارریہ سیمانچل بہار،۔بیگوسرائے بہار،پکڑی برواں نوادہ بہار،مزار چوک،چوڑی پٹی کشن گنج‘ بہار،۔مغلا خار انصارنگر نوادہ بہار،۔مدھوبنی بہار،۔سیتامڑھی بہار،۔سیوان بہار،۔گوپالگنج بہار،۔کلکٹریٹ بتیا مغربی چمپارن بہار،۔ہردیا چوک دیوراج بہار،۔ نرکٹیاگنج بہار، رکسول بہار، دھولیہ مہاراشٹر،۔ناندیڑ مہاراشٹر،۔ہنگولی مہاراشٹر،پرمانی مہاراشٹر،۔ آکولہ مہاراشٹر،۔ پوسد مہاراشٹر،۔کونڈوامہاراشٹر،۔پونہ مہاراشٹر۔ستیہ نند ہاسپٹل مہاراشٹر،۔سرکس پارک کلکتہ،۔قاضی نذرل باغ مغربی بنگال،۔اسلامیہ میدان الہ آبادیوپی،35۔روشن باغ منصور علی پارک الہ آباد یوپی۔محمد علی پارک چمن گنج کانپور-یوپی، گھنٹہ گھر لکھنو یوپی، البرٹ ہال رام نیواس باغ جئے پور راجستھان،۔کوٹہ راجستھان،اقبال میدان بھوپال مدھیہ پردیش،، جامع مسجد گراونڈ اندور،مانک باغ اندور،احمد آباد گجرات، منگلور کرناٹک، ہریانہ کے میوات اور یمنانگر اس کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی دھرنا جاری ہے۔اجمیر میں بھی خواتین کا احتجاج شروع ہوچکا ہے کوٹہ میں احتجاج جاری ہے اور لوک سبھا اسپیکر اوم برلا کے گھر باہر بھی مظاہرہ ہورہا ہے۔ اسی کے ساتھ جارکھنڈ کے رانچی، کڈرو،لوہر دگا، دھنباد کے واسع پور، جمشید پور وغیرہ میں بھی خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں۔

یو این آئی۔ ع ا۔


Conclusion:
Last Updated : Feb 28, 2020, 2:01 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.