دارالحکومت دہلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر نے امریکہ ایوان نمائندگان میں کچھ کانگریس ارکان کی جانب سے کشمیر میں جمہوریت حامی لیڈروں کی گرفتاری پر اعتراضات کو غیر مناسب قرار دیا اور کہا کہ امریکی کانگریس میں کئی لوگ ہیں، جو کشمیر کے قضیہ پر تبصرہ کر رہے ہیں اور خطوط لکھ رہے ہیں، دراصل کانگریس کے ارکان کے پاس کچھ لوگ پہنچتے ہیں، تو وہ لوگ (کانگریس نمائندے) بول دیتے ہیں، میرا احساس یہ ہے کہ میں ان سے پوچھوں کہ آپ نے بھی دہشت گردی کا مقابلہ کیا اور آپ بھی علاحدگی پسندوں سے لڑ چکے ہیں، آپ کا کیا رد عمل تھا؟
وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ اگر پھر بھی ان کی یہی رائے ہوتی ہے تو میں بات کرنے کو تیار ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ 'آرٹیکل 370 کی منسوخی کا معاملہ ہمارا داخلی قضیہ ہے، اس میں دوسرے ممالک کی مداخلت کی ضرورت نہیں۔ آرٹیکل 370 ایک عارضی دفعہ تھا، جس کا کوئی استعمال نہیں تھا، بلکہ اس آرٹیکل کا استحصال ہوا اور علاحدگی پسندوں نے اس کا فائدہ اٹھایا، اس لیے ہم نے مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے یہ فیصلہ لیا۔
وزیر خارجہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ امریکہ سے بھارت کے رشتے بہت ہی مضبوط ہیں، اگلے کچھ دنوں میں وزیر اعظم نریندر مودی اور امریکی سربراہ ڈونالڈ ٹرمپ کی ملاقات ہوگی جس میں بہت سارے پیغامات ہیں۔ پاکستان کے لیے بھی ایک پیغام ہے وہ جس طرح چاہے وہ پیغام پڑھ سکتا ہے۔
پاکستان میں اقلیت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں جے شنکر نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'پاکستان انھیں انسانی حقوق کے بارے میں بتاتا ہے، جبکہ وہ خود اپنے ملک میں اقلیتوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو دیکھ رہا ہے، خو وہ کس طرح اپنی اقلیتوں کے ساتھ رویہ اختیار کرتا ہے، معاملہ صرف سندھیوں پر حملوں کا نہیں ہے، ایک سکھ لڑکی کا اغوا ہوتا ہے، اس کے علاوہ اور بھی خلاف ورزیاں ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اگر کہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہور ہی ہے تو ہمارا نمبر بہت بعد میں آتا ہے۔
حاجیوں کی خدمت کے حوالے سے وزیر خارجہ شنکر نے اپنے 100 دنوں کی حصولیابیاں گنواتے ہوئے کہا کہ حاجیوں کے سفر حج کی کامیابی ہماری بڑی حصولیابی ہے، اس کے علاوہ ہم نے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ جیسے قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے تعلق سے معیاری بین الاقوامی رشتہ سازی اور عالمی موقف طے کرنے کی ہماری بڑھتی صلاحیت۔ اب بڑے مباحثہ پلیٹ فارمز پر بھارتی رائے کو اہمیت حاصل ہے، بھارت کو سنا جارہا ہے۔