مولانا محمد ولی رحمانی کا کہنا ہے کہ اچھی خاصی روشنی کو بجھانا اور دیئے یا لالٹین یا موبائل کی روشنی پھیلانا ملک کو مضبوط صورت حال سے کمزور صورت حال کی طرف لے جانا ہے۔ جس میں وزیراعظم کو بڑی مہارت حاصل ہے۔
انہوں نے اپنے کئی کاموں کے ذریعہ ملک کے عوام کو بہتر سے بد تر حالت کا سفر کرایا ہے۔ جیسے نوٹ بندی، جی ایس ٹی کا غلط نفاذ، بے روزگاری میں اضافہ، کاشت کاروں کی حالت کو نظر انداز کرنا، ملک کے غریبوں، بے زمینوں، کم پڑھے لکھے لوگوں کے لیے این پی آر جیسے کئی اقدام اور پروگرام کے ذریعہ ملک کو بہتر حالت سے بدتر حالت کی طرف لے جا رہے ہیں۔
اندھیرا اور اندھیر نگری وزیر اعظم کا مشغلہ ہو سکتا ہے مگر یہ ملک کی صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔
بجلی کے شعبہ کا بھی کہنا ہے 'اگر روشنی بندی پر عمل کیا گیا تو پاور گریڈ پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے، جس کو ٹھیک کرنے میں ایک ہفتہ کا وقت لگ سکتا ہے، اس کی وجہ سے کورونا کے مریضوں کے علاج میں بڑی دشواری آسکتی ہے، ہوسکتا ہے وزیز اعظم نے پانچ اپریل کی رات روشنی بندی اور اس سے قبل تھالی اور تالی بجانے کی اپیل ہندو دھرم کے پس منظر میں کی ہو اور وہ مذہبی رسم ورواج کو پھیلانے کی کوشش کررہے ہوں مگر اسلام، عیسائیت، سکھ مت، بدھ مت، جین مت میں اس کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہے، جو لوگ اس چیز کو مانتے ہوں وہ کرسکتے ہیں، مگر مسلمانوں، عیسائیوں ، سکھوں ، بدھسٹو اور جینیوں کو اس کے کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اسلام میں اس قسم کے وہم کی کوئی گنجائش نہیں ہے،حضرت رحمانی نے فرمایا کہ کورونا وائرس تاریکی پھیلانے سے بھاگ سکتا ہے، یہ سونچ وزیر اعظم کو مبارک ہو، میرے جیسا انسان روشنی پھیلانے کا قائل ہے، اور اس بات کو صحیح سمجھتا ہے کہ پورا ملک اپنے اپنے گھروں میں رہے، اپنے اپنے طریقہ پر اپنے اللہ کو یاد کرے، پڑوس اور محلہ کے غریبوں اور پریشان حال لوگوں کی مدد کرے، انتظامیہ کی ہدایت کو مانے اس کے مشورہ پر عمل کرے۔
ابھی ڈاکٹر حضرات اور ان کے معاونین بڑی ہمت اور محنت کے ساتھ کام کررہے ہیں، اپنی جان پر کھیل کر مریضوں کا علاج کررہے ہیں، ان کی خدمات کی قدر کی جائے، اور جہاں ضرورت محسوس ہو ان کا تعاون کیا جائے، ملک کی حفاظت سا لمیت اور مریضوں کی صحت کے لیے گھر رہ کر دعاء کی جائے۔