ETV Bharat / bharat

مسجد خالص مخلص: شان و شوکت کی عمدہ شاہ کار

author img

By

Published : Sep 11, 2020, 2:36 PM IST

اتر پردیش کے ضلع جونپور کی خوبصورت مسجد خالص مخلص آج بھی اپنے دور ماضی کا ثبوت پیش کر رہی ہے۔

masjid khalis mukhlis: excellent masterpiece of splendor
مسجد خالص مخلص: شان و شوکت کی عمدہ شاہ کار

ریاست اتر پردیش کے ضلع جونپور میں دور شرقی کی بے شمار تاریخی عمارتیں آج بھی موجود ہیں اس لئے یہ شہر اپنی الگ پہچان رکھتا ہے ان ہی عمارتوں میں سے مسجد خالص مخلص ہے۔ جو اپنی شان و شوکت اور عظمت کی وجہ سے پورے علاقے میں مشہور ہے۔

ویڈیو

جونپور ابتدا ہی سے تہذیب و تمدن اور تعلیم اور ثقافت کا مرکز رہا ہے۔ شاہان شرقیہ کے دور حکومت میں بے شمار تاریخی عمارتوں کا قیام عمل میں آیا۔

ابراہیم شاہ شرقی نے اپنی دور حکومت میں بے شمار مساجد تعمیر کروائی۔ ابراہیم شاہ شرقی کے عہد کی تعمیر کردہ مساجد میں سے مسجد خالص مخلص بھی ہے۔

ملک خالص مخلص ابراہیم شاہ شرقی کے بھائی اور خاص درباریوں میں سے تھے اور اس وقت نظامت جونپور پر بھی مامور تھے ان کی رہائش اسی مقام پر تھی۔

سید عثمان شیرازی امیر تیمور کے حملے کے وقت دہلی سے جون پور تشریف لائے اور اسی مقام پر قیام کیا۔

سید عثمان شیرازی اولیائے کاملین میں سے تھے۔ آپ کے کمال کا شہرہ سن کر لوگ جوق در جوق آنے لگے اور آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہونے لگے چونکی مریدین کی ایک کثیر تعداد آپ کے ساتھ رہتی تھی اس صورتحال کو دیکھ کر ابراہیم شاہ شرقی نے مسجد کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے مسجد اور اس سے متصل ایک خانقاہ 1417 میں تعمیر کرائی جو مسجد خالص مخلص اور خانقاہ شیرازی کے نام سے بہت مشہور ہوئی۔ مسجد کا وجود تو ہنوز باقی ہے مگر خانقاہ کا نام و نشان نہیں۔

فن تعمیر کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو یہ مسجد خاص شرقی دور کے آرٹ کی مظہر ہے جس کی وجہ سے اس کو خاص مرتبہ حاصل ہے۔ اس مسجد کے ستون و گنبد بالکل مسجد اٹالہ کی طرح ہیں البتہ اس کی بناوٹ میں سادگی کو زیادہ دخل ہے اس کا مرکزی محراب سادہ ہے یہ مسجد آثارِ قدیمہ کے تحت ہے۔ یہ پر شکوہ مسجد لوگوں کی توجہ کا مرکز رہتی ہے۔

گنبد کے سامنے چھوٹے چھوٹے کنگوروں کے منڈیر ہیں۔ جو جون پور کی طرز تعمیر سے بالکل ہی انوکھی چیز ہے

مورخین لکھتے ہیں کہ اس مسجد میں ایک پتھر محراب پر جہاں امام کھڑے ہوتے ہیں، اس کے بائیں جانب ایک خاص صفت کا لگا ہوا تھا کہ جو کوئی بچہ ہو یا بوڑھا اگر ناپتا تو چار انگل ہوتا تھا خواہ انگلیاں کتنی پتلی یا موٹی کیوں نہ ہوں جو کوئی ناپتا تھا ناپ میں چار انگول کے برابر ہوتا تھا اور ہندو مسلمان سبھی اس کا احترام کرتے تھے اس بنا پر یہ خالص مخلص مسجد چار انگل کی مسجد کی نام سے عوام میں مشہور ہوگئی مگر موجودہ وقت میں مسجد کے کسی بھی پتھر میں یہ خصوصیت موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس واقعہ کا ثبوت کوئی مستند قدیمی کتابوں سے حوالہ ملتا ہے۔

اس مسجد کا وسطی حصہ جو چہرہ کہا جاتا ہے وہ بڑا با رعب ہے اس مسجد میں اور شرقی عمارتوں کے خلاف نقش و نگار کا نہ ہونا سید عثمان شیرازی کی رائے کی داخل کا ثبوت ہے البتہ اس کے استحکام کی طرف پوری توجہ کی گئی ہے۔

مورخین آگے لکھتے ھیں کہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد جب یہ مسجد ویران ہو گئ تھی اور بطور مکان کے استعمال ہونے لگی تھی تو اس نے اپنے تمام حسن و جمال کو کھو دیا تھا۔ مسجد کی چھت دس کھمبوں کی قطاروں پر مشتمل ہے۔ مسجد کا ستون 30 فٹ بلند ہیں۔ سکندر لودی نے جب جون پور پر حملہ کیا تو اس مسجد کو بھی نقصان پہنچایا اور 1871 اور 1894 کے سیلاب نے بھی رہی سہی کسر پوری کردی تھی جب ولنڈ صاحب بہادر جون پور تعینات ہو کر آئے تو انہوں نے اس مسجد کی صفائی کا اہتمام کیا۔

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے سماجی کارکن عظمت علی نے کہا کہ ’مسجد کے اندر بڑی بڑی گھاس اگ آئی ہے۔ آثار قدیمہ اگر اس کی صحیح طریقے سے صفائی کا اہتمام کرے تو اس سے سیاحت کو بھی کافی فروغ مل سکتا ہے۔ میری اپیل ہے کہ انتظامیہ اس مسجد کا خصوصی خیال رکھے تاکہ اس سے عوام کے ساتھ ساتھ حکومت کا بھی فائدہ ہو'۔

مسجد کی دیکھ بھال کرنے والے منور نے بتایا کہ 'مسجد میں مسلسل نماز پڑھی جاتی ہے اور روزآنہ مسجد کھلتی ہے دور دور سے لوگ اس مسجد کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں اس کا کوئی ٹکٹ نہیں ہے'۔

ریاست اتر پردیش کے ضلع جونپور میں دور شرقی کی بے شمار تاریخی عمارتیں آج بھی موجود ہیں اس لئے یہ شہر اپنی الگ پہچان رکھتا ہے ان ہی عمارتوں میں سے مسجد خالص مخلص ہے۔ جو اپنی شان و شوکت اور عظمت کی وجہ سے پورے علاقے میں مشہور ہے۔

ویڈیو

جونپور ابتدا ہی سے تہذیب و تمدن اور تعلیم اور ثقافت کا مرکز رہا ہے۔ شاہان شرقیہ کے دور حکومت میں بے شمار تاریخی عمارتوں کا قیام عمل میں آیا۔

ابراہیم شاہ شرقی نے اپنی دور حکومت میں بے شمار مساجد تعمیر کروائی۔ ابراہیم شاہ شرقی کے عہد کی تعمیر کردہ مساجد میں سے مسجد خالص مخلص بھی ہے۔

ملک خالص مخلص ابراہیم شاہ شرقی کے بھائی اور خاص درباریوں میں سے تھے اور اس وقت نظامت جونپور پر بھی مامور تھے ان کی رہائش اسی مقام پر تھی۔

سید عثمان شیرازی امیر تیمور کے حملے کے وقت دہلی سے جون پور تشریف لائے اور اسی مقام پر قیام کیا۔

سید عثمان شیرازی اولیائے کاملین میں سے تھے۔ آپ کے کمال کا شہرہ سن کر لوگ جوق در جوق آنے لگے اور آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہونے لگے چونکی مریدین کی ایک کثیر تعداد آپ کے ساتھ رہتی تھی اس صورتحال کو دیکھ کر ابراہیم شاہ شرقی نے مسجد کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے مسجد اور اس سے متصل ایک خانقاہ 1417 میں تعمیر کرائی جو مسجد خالص مخلص اور خانقاہ شیرازی کے نام سے بہت مشہور ہوئی۔ مسجد کا وجود تو ہنوز باقی ہے مگر خانقاہ کا نام و نشان نہیں۔

فن تعمیر کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو یہ مسجد خاص شرقی دور کے آرٹ کی مظہر ہے جس کی وجہ سے اس کو خاص مرتبہ حاصل ہے۔ اس مسجد کے ستون و گنبد بالکل مسجد اٹالہ کی طرح ہیں البتہ اس کی بناوٹ میں سادگی کو زیادہ دخل ہے اس کا مرکزی محراب سادہ ہے یہ مسجد آثارِ قدیمہ کے تحت ہے۔ یہ پر شکوہ مسجد لوگوں کی توجہ کا مرکز رہتی ہے۔

گنبد کے سامنے چھوٹے چھوٹے کنگوروں کے منڈیر ہیں۔ جو جون پور کی طرز تعمیر سے بالکل ہی انوکھی چیز ہے

مورخین لکھتے ہیں کہ اس مسجد میں ایک پتھر محراب پر جہاں امام کھڑے ہوتے ہیں، اس کے بائیں جانب ایک خاص صفت کا لگا ہوا تھا کہ جو کوئی بچہ ہو یا بوڑھا اگر ناپتا تو چار انگل ہوتا تھا خواہ انگلیاں کتنی پتلی یا موٹی کیوں نہ ہوں جو کوئی ناپتا تھا ناپ میں چار انگول کے برابر ہوتا تھا اور ہندو مسلمان سبھی اس کا احترام کرتے تھے اس بنا پر یہ خالص مخلص مسجد چار انگل کی مسجد کی نام سے عوام میں مشہور ہوگئی مگر موجودہ وقت میں مسجد کے کسی بھی پتھر میں یہ خصوصیت موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس واقعہ کا ثبوت کوئی مستند قدیمی کتابوں سے حوالہ ملتا ہے۔

اس مسجد کا وسطی حصہ جو چہرہ کہا جاتا ہے وہ بڑا با رعب ہے اس مسجد میں اور شرقی عمارتوں کے خلاف نقش و نگار کا نہ ہونا سید عثمان شیرازی کی رائے کی داخل کا ثبوت ہے البتہ اس کے استحکام کی طرف پوری توجہ کی گئی ہے۔

مورخین آگے لکھتے ھیں کہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد جب یہ مسجد ویران ہو گئ تھی اور بطور مکان کے استعمال ہونے لگی تھی تو اس نے اپنے تمام حسن و جمال کو کھو دیا تھا۔ مسجد کی چھت دس کھمبوں کی قطاروں پر مشتمل ہے۔ مسجد کا ستون 30 فٹ بلند ہیں۔ سکندر لودی نے جب جون پور پر حملہ کیا تو اس مسجد کو بھی نقصان پہنچایا اور 1871 اور 1894 کے سیلاب نے بھی رہی سہی کسر پوری کردی تھی جب ولنڈ صاحب بہادر جون پور تعینات ہو کر آئے تو انہوں نے اس مسجد کی صفائی کا اہتمام کیا۔

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے سماجی کارکن عظمت علی نے کہا کہ ’مسجد کے اندر بڑی بڑی گھاس اگ آئی ہے۔ آثار قدیمہ اگر اس کی صحیح طریقے سے صفائی کا اہتمام کرے تو اس سے سیاحت کو بھی کافی فروغ مل سکتا ہے۔ میری اپیل ہے کہ انتظامیہ اس مسجد کا خصوصی خیال رکھے تاکہ اس سے عوام کے ساتھ ساتھ حکومت کا بھی فائدہ ہو'۔

مسجد کی دیکھ بھال کرنے والے منور نے بتایا کہ 'مسجد میں مسلسل نماز پڑھی جاتی ہے اور روزآنہ مسجد کھلتی ہے دور دور سے لوگ اس مسجد کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں اس کا کوئی ٹکٹ نہیں ہے'۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.