ETV Bharat / bharat

گلگت بلتستان میں چینی سرمایہ کاری: آزادانہ منصوبہ یا پریشانی کا باعث

author img

By

Published : Oct 2, 2020, 10:41 AM IST

چین کا ایک اہم تجارتی منصوبہ چین ۔ پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) گلگت بلتستان (جی بی) سے گزرتا ہے۔ اس سے خطہ میں کیا اثر پڑے گا۔ اسی ضمن میں گلگت بلتستان اور چین کی سرمایہ کاری پر ای ٹی وی بھارت کے نیوز ایڈیٹر بلال بھٹ نے تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔

making chinas investment in gilgit baltistan a hassle free venture
نقشہ

گلگت بلتستان کو پاکستان کا ایک پختہ اور مستقل صوبہ بنانے کے خیال نے خطے میں ہلچل پیدا کردی ہے۔

گلگت بلتستان کے باشندے بھارت میں دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کو ختم کرنے کے فیصلے کو ایک بڑے اقدام کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جس کے بعد جموں و کشمیر کو آئین کے اندر ایک خاص درجہ فراہم کیا گیا اور یہ مرکز کے زیر انتظام علاقہ بن گیا۔

یہ مسئلہ کشمیر اور گلگت بلتستان (جی بی) کے امور کے وزیر علی امین گنڈا پور نے صحافیوں کے سامنے پیش کیا، جب گلگت بلتستان کو اپنا پانچواں صوبہ بنا کر پاکستان کی سیاسی و جغرافیائی پوزیشن تبدیل کرنے کے ارادوں کے انکشاف کرنے کے بعد منظر عام پر آیا۔

ایسا مانا جاتا ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر (پی او کے) کے دوسرے حصے کے برعکس جی بی کو صوبہ بنانے کے بعد پاکستان کی قومی اسمبلی میں مناسب نمائندگی حاصل ہوگی۔

صوبائی سطح پر گلگت بلتستان میں اس طرح کی نئی تبدیلی کا مطلب بظاہر خطے کی اپوزیشن آوازوں کو بند کرنا ہے جو کبھی نہیں چاہتے تھے کہ گلگت بلتستان کو جموں و کشمیر کا حصہ سمجھا جائے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس خطے کی اپنی سیاسی تاریخ بقیہ جموں و کشمیر سے الگ اور آزاد ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان امرتسر کے معاہدے کا حصہ نہیں تھا۔ جو کہ گلاب سنگھ نے انگریزوں کے ساتھ معاہدہ کیا تھا۔ یہ بعد میں جموں و کشمیر کا حصہ بن گیا۔

تب شمالی علاقہ جات گلگت ایجنسی براہ راست ایک پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعہ برطانیہ کے زیر انتظام تھے، تاکہ اس کی سرحد سے آگے اشتراکیت کا اثر و رسوخ ہوسکے۔

جی بی کی قیادت کا خیال تھا کہ یہ خطہ کشمیر کے ساتھ مل کر اس کی تنزلی کا شکار ہے۔ کاغذات کے حساب سے یہ خطہ جموں اور کشمیر کا ایک حصہ ہے لیکن باقی مقبوضہ کشمیر جیسی خودمختاری سے لطف اندوز نہیں۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر (پی او کے) کے پاس گلگت بلتستان کے برعکس ایک علیحدہ صدر، ایک وزیراعظم اور ایک قانون ساز اسمبلی ہے، جو پاکستان کے ذریعے براہ راست زیر انتظام ایک قانون ساز اسمبلی کے ذریعے چلتا ہے۔ یہ پاکستان میں 2018 میں احکامات جاری کرنے کے بعد وجود میں آیا تھا۔

making chinas investment in gilgit baltistan a hassle free venture
نقشہ

پی او کے کی اپنی سپریم کورٹ ہے جس کا جی بی سے زیادہ دائرہ اختیار نہیں ہے۔ پاکستان کے فیصلے اور پاک ۔ چین معاہدے کی ایک اعلی عدالت کے مطابق جموں و کشمیر کا حتمی تصفیہ پہلے سے طئے شدہ جی بی پر لاگو ہوگا، لیکن اگر اس خطے کو پاکستان کا ایک اور صوبہ بنا دیا جائے تو وہ اس خطے کی مجموعی سیاسی نوعیت ازسر نو بدل جائے گی۔

ایک یورپی تھنک ٹینک یورپی فاؤنڈیشن فار ساؤتھ ایشین اسٹڈیز (ای ایف ایس اے ایس) کا کہنا ہے کہ 'یہ فیصلہ راولپنڈی نے لیا ہے، اسلام آباد کے ذریعہ نہیں۔ راولپنڈی پاکستان کا استعاراتی فوجی دارالحکومت ہے'۔

بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ متنازعہ خطے میں اقتصادی سرمایہ کاری کی وجہ سے چین، گلگت بلتستان کی حیثیت کی تبدیلی پر زور دے رہا ہے۔

چین کا ایک اہم تجارتی راستہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) جی بی سے ہو کر گزرتا ہے۔

یہ علاقہ غیر منقسم جموں و کشمیر کے حصے کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے جانے کے دوران تنازعات کے تحت ریاست کے ایک حصے کے طور پر گلگت بلتستان کے گلگت ایجنسی کا ذکر کیا تھا۔

ایک بار جب یہ ایک صوبہ بن جاتا ہے تو پاکستان اپنی زمین اور دیگر وسائل کو بلا تردد استعمال کرکے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اور اس معاملے میں جو بات واضح ہے کسی بھی ملک (مثلا چین) کو خطے میں معاشی سرگرمیاں انجام دینے میں آسانی ہوگی۔

چینیوں نے سی پی ای سی پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ ان کا بھڑک اٹھنا ان کے مفادات کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان، گلگت بلتستان پر مکمل قانونی قبضہ حاصل کرلے تو چینی اپنے مفادات کے حصول کے لئے کامیاب ہوسکتے ہیں۔

یہ خیال کیا جاتا ہے کہ لداخ میں حقیقی خط قبضہ (لائن آف کنٹرول) کے قریب چین کی فوجی کارراوئی دفعہ 370 اور 35 اے کو منسوخ کرنے کا رد عمل تھا۔ پانچ اگست سے قبل کی حیثیت چینیوں کو زیادہ مناسب لگتی تھی۔

سرحدی جارحیت کے علاوہ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ چین کے کہنے پر جی بی میں آئینی تبدیلی پانچ اگست کی تبدیلیوں کا جواب معلوم ہوتی ہے۔

نیز یہ بھی نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ جی بی کی حیثیت میں کسی بھی ممکنہ تبدیلی کے خلاف بھارت کی طرف سے آواز اٹھانے کے بعد ایل اے سی پر چینی جارحیت میں شدت آگئی۔

حکومت ہند کی بلوچستان کی علیحدگی پسند آوازوں کے لئے حمایت نے پاکستان کو مشتعل کردیا ہے، لہذا ایل اے سی اور ایل او سی سرحدیں دن بدن متنازعہ اور گرم ہوتی جارہی ہیں۔

مجموعی طور پر اگر وہ اس فیصلے کے ساتھ آگے بڑھتا ہے تو پاکستان سوائے کچھ حریت پسند رہنماؤں کی حمایت کے بہت زیادہ کھونے والا نہیں ہے، جنھوں نے اس پر زور دیا ہے کہ وہ کشمیر کی حتمی قرارداد تک جی بی کی حیثیت کو تبدیل نہ کریں۔

حریت کانفرنس کے ہارڈ لائن دھڑے کے نمائندے عبداللہ گیلانی نے پاکستان کے اس وقت کے آرمی جنرل (ریٹائرڈ) اشفاق کیانی کے سامنے جی بی کے انضمام کی مخالفت کی تھی۔

یہ اقدام پاکستان کے لیے زیادہ تبدیلی کا باعث نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ چین اپنے منصوبوں کو جی بی میں آسانی سے مکمل کرسکے گا اور اسے نفسیاتی راحت ملے گی۔

گلگت بلتستان کا پی او کے کا حصہ بننا ایک بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے اور جب تک یہ طے نہیں ہوتا اس وقت تک باقی رہے گا چاہے وہ پاکستان کا صوبہ بنے یا نہ بنے۔۔۔۔۔

گلگت بلتستان کو پاکستان کا ایک پختہ اور مستقل صوبہ بنانے کے خیال نے خطے میں ہلچل پیدا کردی ہے۔

گلگت بلتستان کے باشندے بھارت میں دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کو ختم کرنے کے فیصلے کو ایک بڑے اقدام کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جس کے بعد جموں و کشمیر کو آئین کے اندر ایک خاص درجہ فراہم کیا گیا اور یہ مرکز کے زیر انتظام علاقہ بن گیا۔

یہ مسئلہ کشمیر اور گلگت بلتستان (جی بی) کے امور کے وزیر علی امین گنڈا پور نے صحافیوں کے سامنے پیش کیا، جب گلگت بلتستان کو اپنا پانچواں صوبہ بنا کر پاکستان کی سیاسی و جغرافیائی پوزیشن تبدیل کرنے کے ارادوں کے انکشاف کرنے کے بعد منظر عام پر آیا۔

ایسا مانا جاتا ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر (پی او کے) کے دوسرے حصے کے برعکس جی بی کو صوبہ بنانے کے بعد پاکستان کی قومی اسمبلی میں مناسب نمائندگی حاصل ہوگی۔

صوبائی سطح پر گلگت بلتستان میں اس طرح کی نئی تبدیلی کا مطلب بظاہر خطے کی اپوزیشن آوازوں کو بند کرنا ہے جو کبھی نہیں چاہتے تھے کہ گلگت بلتستان کو جموں و کشمیر کا حصہ سمجھا جائے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس خطے کی اپنی سیاسی تاریخ بقیہ جموں و کشمیر سے الگ اور آزاد ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان امرتسر کے معاہدے کا حصہ نہیں تھا۔ جو کہ گلاب سنگھ نے انگریزوں کے ساتھ معاہدہ کیا تھا۔ یہ بعد میں جموں و کشمیر کا حصہ بن گیا۔

تب شمالی علاقہ جات گلگت ایجنسی براہ راست ایک پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعہ برطانیہ کے زیر انتظام تھے، تاکہ اس کی سرحد سے آگے اشتراکیت کا اثر و رسوخ ہوسکے۔

جی بی کی قیادت کا خیال تھا کہ یہ خطہ کشمیر کے ساتھ مل کر اس کی تنزلی کا شکار ہے۔ کاغذات کے حساب سے یہ خطہ جموں اور کشمیر کا ایک حصہ ہے لیکن باقی مقبوضہ کشمیر جیسی خودمختاری سے لطف اندوز نہیں۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر (پی او کے) کے پاس گلگت بلتستان کے برعکس ایک علیحدہ صدر، ایک وزیراعظم اور ایک قانون ساز اسمبلی ہے، جو پاکستان کے ذریعے براہ راست زیر انتظام ایک قانون ساز اسمبلی کے ذریعے چلتا ہے۔ یہ پاکستان میں 2018 میں احکامات جاری کرنے کے بعد وجود میں آیا تھا۔

making chinas investment in gilgit baltistan a hassle free venture
نقشہ

پی او کے کی اپنی سپریم کورٹ ہے جس کا جی بی سے زیادہ دائرہ اختیار نہیں ہے۔ پاکستان کے فیصلے اور پاک ۔ چین معاہدے کی ایک اعلی عدالت کے مطابق جموں و کشمیر کا حتمی تصفیہ پہلے سے طئے شدہ جی بی پر لاگو ہوگا، لیکن اگر اس خطے کو پاکستان کا ایک اور صوبہ بنا دیا جائے تو وہ اس خطے کی مجموعی سیاسی نوعیت ازسر نو بدل جائے گی۔

ایک یورپی تھنک ٹینک یورپی فاؤنڈیشن فار ساؤتھ ایشین اسٹڈیز (ای ایف ایس اے ایس) کا کہنا ہے کہ 'یہ فیصلہ راولپنڈی نے لیا ہے، اسلام آباد کے ذریعہ نہیں۔ راولپنڈی پاکستان کا استعاراتی فوجی دارالحکومت ہے'۔

بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ متنازعہ خطے میں اقتصادی سرمایہ کاری کی وجہ سے چین، گلگت بلتستان کی حیثیت کی تبدیلی پر زور دے رہا ہے۔

چین کا ایک اہم تجارتی راستہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) جی بی سے ہو کر گزرتا ہے۔

یہ علاقہ غیر منقسم جموں و کشمیر کے حصے کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے جانے کے دوران تنازعات کے تحت ریاست کے ایک حصے کے طور پر گلگت بلتستان کے گلگت ایجنسی کا ذکر کیا تھا۔

ایک بار جب یہ ایک صوبہ بن جاتا ہے تو پاکستان اپنی زمین اور دیگر وسائل کو بلا تردد استعمال کرکے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اور اس معاملے میں جو بات واضح ہے کسی بھی ملک (مثلا چین) کو خطے میں معاشی سرگرمیاں انجام دینے میں آسانی ہوگی۔

چینیوں نے سی پی ای سی پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ ان کا بھڑک اٹھنا ان کے مفادات کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان، گلگت بلتستان پر مکمل قانونی قبضہ حاصل کرلے تو چینی اپنے مفادات کے حصول کے لئے کامیاب ہوسکتے ہیں۔

یہ خیال کیا جاتا ہے کہ لداخ میں حقیقی خط قبضہ (لائن آف کنٹرول) کے قریب چین کی فوجی کارراوئی دفعہ 370 اور 35 اے کو منسوخ کرنے کا رد عمل تھا۔ پانچ اگست سے قبل کی حیثیت چینیوں کو زیادہ مناسب لگتی تھی۔

سرحدی جارحیت کے علاوہ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ چین کے کہنے پر جی بی میں آئینی تبدیلی پانچ اگست کی تبدیلیوں کا جواب معلوم ہوتی ہے۔

نیز یہ بھی نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ جی بی کی حیثیت میں کسی بھی ممکنہ تبدیلی کے خلاف بھارت کی طرف سے آواز اٹھانے کے بعد ایل اے سی پر چینی جارحیت میں شدت آگئی۔

حکومت ہند کی بلوچستان کی علیحدگی پسند آوازوں کے لئے حمایت نے پاکستان کو مشتعل کردیا ہے، لہذا ایل اے سی اور ایل او سی سرحدیں دن بدن متنازعہ اور گرم ہوتی جارہی ہیں۔

مجموعی طور پر اگر وہ اس فیصلے کے ساتھ آگے بڑھتا ہے تو پاکستان سوائے کچھ حریت پسند رہنماؤں کی حمایت کے بہت زیادہ کھونے والا نہیں ہے، جنھوں نے اس پر زور دیا ہے کہ وہ کشمیر کی حتمی قرارداد تک جی بی کی حیثیت کو تبدیل نہ کریں۔

حریت کانفرنس کے ہارڈ لائن دھڑے کے نمائندے عبداللہ گیلانی نے پاکستان کے اس وقت کے آرمی جنرل (ریٹائرڈ) اشفاق کیانی کے سامنے جی بی کے انضمام کی مخالفت کی تھی۔

یہ اقدام پاکستان کے لیے زیادہ تبدیلی کا باعث نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ چین اپنے منصوبوں کو جی بی میں آسانی سے مکمل کرسکے گا اور اسے نفسیاتی راحت ملے گی۔

گلگت بلتستان کا پی او کے کا حصہ بننا ایک بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے اور جب تک یہ طے نہیں ہوتا اس وقت تک باقی رہے گا چاہے وہ پاکستان کا صوبہ بنے یا نہ بنے۔۔۔۔۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.