اقوام متحدہ کی تنظیم یونیسف کے مطابق لاک ڈاون نے 18 سال سے کم عمر کے 444 ملین بچوں میں سے، لگ بھگ 40 ملین (چار کروڑ) بچوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
یونیسف نے کہا ہے کہ صحت کا یہ بحران بچوں کے حقوق کا بحران بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
لاکھوں بے گھر بچے ہیں جو سڑکوں پر، فلائی اوور کے نیچے یا تنگ گلیوں اور شہروں میں رہتے ہیں۔ صرف دہلی میں، ان کی تعداد کم از کم 70،000 یا لاکھ تک ہوسکتی ہے۔
ای ٹی وی بھارت کو دئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں بھارت میں عالمی ادارہ یونیسف کی نمائندہ ڈاکٹر یاسمین علی حق نے کہا: "کووڈ-19 وبائی بیماری نے بھارت میں لاکھوں بچوں کو براہ راست یا بالواسطہ طور پر متاثر کیا ہے''۔
درحقیقت، سب سے زیادہ کمزور بچے وہ ہیں جو سڑکوں پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ان کا اپنا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے، یہ شہر کی کچی آبادی میں کسمپرسی کی حالت میں ہیں یا دیہی علاقوں میں رہتے ہیں یا پھر اپنے گھر والوں کے ساتھ نقل مکانی کر رہے ہیں، ان کی حالت انتہائی ابتر ہوگئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ بھارت میں "یونیسف مرکزی وزارتیں، ریاستی حکام اور ضلع انتظامیہ کے ساتھ خاص طور پر ایسے بچوں کی نشاندہی پر کام کر رہا ہے۔
بچوں پر ہورہے ظلم وتشدد میں گھریلو زیادتیاں، فاقہ کشی، جنسی زیادتی اور صنفی امتیاز جیسی برائیاں سامنے آئی ہیں۔ اور یہ بچے صرف زندہ رہنے کے لئے مدد اور کھانا طلب کرنے کے لئے ہیلپ لائن نمبرز پر کال کر رہے ہیں۔ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک سرکاری تنظیم چائلڈ لائن سروس کو تین لاکھ سے زیادہ کالز موصول ہوئی ہیں۔
ڈاکٹر یاسمین علی حق نے کہا کہ: "جب اسکول بند رہتے ہیں تب ان کے معمولات بدل جاتے ہیں۔ ان کی ذہنی صحت اور تناؤ کی سطح بھی تشویش کا باعث ہوتی ہے''۔
انہوں نے مزید کہا کہ یونیسیف چائلڈ لائن کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے تاکہ نفسیاتی نگہداشت (پی ایس ایس) کے بارے میں مزید تربیت اور بچوں کے خلاف تشدد سے نمٹنے کے لیے ہنگامی صورتحال پر قابو پایا جاسکے۔
بچوں اور خواتین کی وزارت نے یونیسیف کے ساتھ ملکر آن لائن اورینٹییشن پروگرام کا اہتمام کیا ہے جس میں 16 ہزار افسران بچوں کے تحفظ پر کام کر رہے ہیں۔