انہوں نے اپنے بیان میں دعوی کیا کہ مسلم نوجوانوں کا ایک چھوٹا طبقہ دراصل مسلم سماج کے لئے فکر و تردّد کا باعث بنا ہوا ہے، جنھیں قران و سنّت کے دائرہ میں منفی رحجان کے لئے استعمال کیا جا تا ہے۔ یہ سوچ چند ایسے عناصر کے ذریعہ پھیلائی جا رہی ہے جو مسلم نوجوانوں کو مسلم میڈیا، انٹرنیٹ سوشل میڈیاکے ذریعے بڑے پیمانے پر غلط اور جھوٹا پروپگنڈہ، غلط تصویروں اوراسی قسم کے مٹیریل سے ورغلانے اور ان کے جذبات کو بھڑکانےکی کو شش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ بعض اخبارات کے مضامین اور اکسانے والے میٹریل سے نوجوان مشتعل ہوجاتے ہیں جس کا خمیازہ آخر میں ان بچوں کو بھگتنا پڑتا ہے اور پھر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ مسلم سماج ہی ایسا ہے۔
مسلم میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ اس کیفیت کی رد میں منفی رحجان کے بجائے مثبت راہ بتائے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے بھی ذہنیت بگاڑنے کا کام کیا جارہا ہے جس کی بناء پر مسلم نوجوان منفی خیالات جلد اپنالیتے ہیں اور بعض اوقات مثبت خبروں اور باتوں کو بھی مشکوک سمجھتے ہیں۔
مسلم نوجوانوں کو اس فکر و تردّد اور تشویش سے نکالنے اور جھوٹی باتوں، منفی رحجانات سے اجتناب کرنے اورقوم و مِلّت کے بہتر مستقبل کے لئے یہ مسلم نوجوان ایک مثبت چہرہ اور رہنمائی کا کردار بنیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم سماج کے مقتدر و برگزیدہ، دانشمندوں اور نئی نسل کے تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو اصلاح کے لئے آگے آنا ضروری ہے جو قوم کے ان نوجوانوں کو بااعتماد و با صلاحیت مثبت چہرہ بنانے میں مدد کریں۔ وہ اس بات کی کوشش کریں کہ سچ اور جھوٹ کیا ہے مسلم سماج کو بتائیں۔ایک تحریک کے ذریعے مسلمانوں کے ذہنوں کو بیدار کریں اور مختلف ویب سائٹس اور معلومات کا تجزیہ کریں اور دیکھیں کہ یہ مضامین، اخبارات و رسائل، انٹرنیٹ کے ذریعے کیا غلط اور کیا صحیح پیش کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مسلمانوں میں نئی نسل جو جدید تعلیم حاصل کر رہی ہے دراصل وہ قوم کا درخشاں مستقبل ہیں۔ وہ اپنی دینی تعلیم اور اللہ کی کبریائی کو خوداپنے طور پر اپنی تعلیم و تربیت سے جانیں وہ اسلام کو خود سمجھیں کہ ان کا اپنا مذہب اللہ کی طرف سے ایک تحفہ عظیم ہے اور ساری انسانیت کے لئے بھی ہے۔ لیکن غلط باتوں، جھوٹے پروپگنڈےکی وجہ سے وہ نہ قوم و مِلّت اور نہ ہی اپنے سماج کے لئے مفید اور مثبت ہیں۔ بلکہ اس سے مسلم سماج کی بد نامی ہوتی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان نوجوانوں کو جمعہ کے خطبے میں ائمہ کرام بھی اس بات کو بتائیں کہ غیر مسلم اسلام کو کبھی بھی ان کے لئے بالکل خطرہ نہیں مانتے اور اسلامو فوبیا کا بھارت میں کوئی مقام نہیں، نہ ہی کوئی اسے اسلامو فوبیا مانتا ہے۔
مزید پڑھیں:
'انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات میں کمی نہیں آئی ہے'
ڈاکٹر بوبیرے نے اپیل کی کہ وہ نوجوان جوغلط راہ پر بھٹک گئے ہیں وہ اس غلط رحجان اور منفی خیالات اور اسلام کے بارے میں غلط سوچ رکھ کر بم اور گن کلچر، یا بے چینی پھیلانے سے نکل آئیں تا کہ عام لوگوں کا یہ غلط تاثر بدل جائے جو یہ سمجھتے ہوں کہ اسلام اور مسلمان اس طرح ہیں۔ کیا یہ مثبت سوچ ہم اپنی تحریک سے مسلم سماج اور نئی نسل کو قوم ومِلّت کے بہتر مستقبل کے لئے مثبت رحجان کا چہرہ دے سکتے ہیں۔ آیئے ہم عزم کریں اور بتا دیں کہ اسلامو فوبیا ایک بے مقصد اور کھوکھلا پن ہے۔