سینیئر صحافی و کالم نگار سنجیب کمار برووا نے کہا کہ بھارت - چین سرحد پر جاری تعطل اور دونوں افواج کے مابین وقفے وقفے سے ہونے والی جھڑپ کے باوجود اس سنگین تنازعے کو حل کرنے میں ناکامی ہی اب تک ہاتھ آئی ہے لیکن اب صورتحال میں اچانک تبدیلی واقع ہوگئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب لائن آف ایکچوول کنٹرول (ایل اے سی) کو نئے اصول و ضوابط کے ساتھ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کی نئی حدبندی کا امکان روشن ہوگیا ہے۔
لائن آف ایکچوول کنٹرول پر بھارت اور پاکستان کے درمیان اصل سرحد قائم ہے اس کے باوجود وہاں پردونوں ممالک کے درمیان سنہ 2013 میں جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد بھی فائرنگ کا تبادلہ جاری رہتا ہے۔
باہمی افہام و تفہیم اور معاہدے نے ایل اے سی کو کئی دہائیوں تک کھلے عام جنگ سے محتاط رکھا لیکن پیر (7 ستمبر) کو پینگونگ تسو کے جنوبی ساحل پر ریجانگ لا کے قریب مکھیہ پاری پہاڑ کے آس پاس کے علاقوں میں بندوق اور اسلحہ استعمال نہ کرنے کے معاہدے کو توڑ دیا۔
یہاں تک کہ سرحدی گشتی دستے نہتے یا بندوق بردار کو اس کی بیرل کے ساتھ نیچے کی جانب لے جا رہے تھے۔
ایک سینیئر دفاعی عہدیدار نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ اب ایک نئی کسوٹی یہ ہے کہ زیادہ تر سرگرمیاں پی ایل اے کے ذریعہ رات کے وقت کی جاتی ہیں جس سے اندھیرے میں یہ معلوم کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ دراندازی کی جارہی ہے یا سازو سامان جمع کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ٹرک اور کثیر گاڑیاں رات کے وقت پی ایل اے کی پوزیشن پر پیگونگ تسو کے جنوبی کنارے پر جا رہی ہیں اور یہ صرف لائحہ عمل یا دیگر وجوہات کی بنا پر ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سرکاری طور پر بتایا گیا ہے کہ ایل اے سی پر رات کے وقت کی سرگرمیاں بند تھیں۔
بھارت اور چین نے مل کر ایل اے سی کے دونوں اطراف فوجی سامان کے علاوہ توپ خانے اور جنگی سازوسامان سمیت دیگر علاقوں میں ایک لاکھ سے زیادہ فوجی کی نفری تعینات کر رکھی ہیں اور ساتھ ہی دونوں طرف جنگی طیارے بھی تعینات کردیے گئے ہیں۔
ایک رپورٹ میں پی ایل اے نے ایل اے سی پر گہرائی والے علاقوں میں قائم نئی پوزیشنز پر چینی وائی-20 فوجی ٹرانسپورٹ طیارے ایئرڈروپنگ پیراٹروپرز اور کثیر تعداد میں بندوق برداروں کو تعینات کردیا گیا ہے جس کے جواب میں بھارت نے بھی اونچی چوٹیوں پر اپنی کمین گاہ بنالی ہے اور چینی فوجیوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔