مشرقی لداخ میں ایک سو سے زائد ایام سے بھارت اور چینی افواج ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ چینی فوج پہلے جیسی صورتحال کو بحال کرنے کے بھارتی مطالبے کو ماننے کا ارادہ نہیں رکھتی ہے۔
اس حقیقت کی عکاسی چیف آف ڈیفینس سٹاف (سی ڈی ایس) کے اُس بیان سے بھی ہوتی ہے، جس میں انہوں نے' پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو مطلع کیا کہ ملک کی آرمڈ فورسز لائن آف ایکچیول کنٹرول (ایل اے سی) پر کسی بھی طرح کی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے اور سخت ترین سرما کے دوران بھی موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لئے تیار ہے'۔
جب ہم لداخ میں موسم سرما کا تذکرہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ فوجیوں کو ایک ایسی بلندی پر منجمند کردینی والی سردیوں کا مقابلہ کرنا ہوگا، جہاں ویسے بھی ہمارے شہروں اور قصبوں کے مقابلے میں نصف مقدار میں ہی آکسیجن میسر ہوتا ہے۔ اس مقام پر پانی کا حصول بھی مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہاں موسم سرما میں ہر شئے منجمند رہتی ہے۔ ہر سال پانچ سے چھ ماہ تک لداخ باقی ملک سے کٹا رہتا ہے۔ کیونکہ باقی ملک کو لداخ کے ساتھ جوڑنے والے دو راستے روہتانگ اور زوجیلا پوری طرح برف کے نیچے ڈھک جاتے ہیں۔
موسم سرما بلا شبہ فوجیوں کوتھکا دینے والا ہوتا ہے۔ لیکن فوجی منصوبہ سازوں کے لئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ انہیں یہ بات یقینی بنانی ہوگی کہ لداخ میں تعینات فوجی مطلوبہ سازو سامان سے لیس ہوں اور انہیں ہر وہ شئے میسر ہو، جس کی اُنہیں موسم سرما میں ضرورت ہوسکتی ہے۔ کیونکہ یہ خطہ موسم سرما میں ناقابل رسائی ہوجاتا ہے۔
لداخ کے حوالے سے فوج کے لئے رسد رسانی سب سے بڑا عملی کام ہوتا ہے۔ اسے فوجی اصطلاح میں 'ایڈوانس ونٹر سٹاکنگ' (پیشگی سرمائی ذخیرہ اندوزی) کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت سپاہیوں کو چھ ماہ کے لئے یعنی جب تک لداخ کی سڑکیں مسدود رہتی ہیں، اس وقت تک انہیں درکار ہر چیز بہم پہنچانے کے لئے نقل و حرکت کی جاتی ہے۔
اس کی تیاریاں کئی ماہ قبل سے ہی شروع کی جاتی ہیں اور اس ضمن میں دانت صاف کرنے کے برش سے لے کر کپڑوں تک اور بند ڈبوں والی غذائی اجناس سے لے کر راشن، تیل، ادویات، گولہ بارود، سیمنٹ اور پناہ گاہوں تک کی ہر چیز کا حساب کتاب جوڑ کر ان کی بہم رسانی کی جاتی ہے۔
یہاں تک کہ یہ سارا مال و اسباب پٹھان کوٹ اور جموں کے گوداموں تک پہلے ہی پہنچایا جاتا ہے۔ جبکہ بارڈر روڈز آرگنائزیشن لداخ جانے والی دونوں سڑکوں پر برف ہٹانے کے کام میں محو رہتی ہے۔ جوں ہی مئی کے آس پاس سڑکیں کھلنے لگتی ہیں، فوجی قافلے اسٹاک کو لے کر لداخ کی جانب چل پڑتے ہیں۔
لہیہ جانے اور پھر واپس لوٹنے میں زوجیلا کے راستے سے لگ بھگ دس دن اور روہتانگ کے راستے سے چودہ دن لگتے ہیں۔ راستے میں کئی عارضی پناہ گاہیں قائم ہیں، جہاں پر قافلوں کے ڈرائیورز رات کو آرام کرتے ہیں۔
دو ہفتوں پر محیط اس سفر کے دوران ڈرائیورز ہر رات مختلف مقامات پر آرام کرتے ہیں اور پھر منزل پر پہنچنے کے بعد دوبارہ سفر کرنے کے لئے انہیں دو دن آرام کرنے کے لئے ملتے ہیں تاکہ وہ دوبارہ اسی طرح کے سفر کے لئے تیار ہوجائیں۔اگلے چھ ماہ تک ان کا مسلسل یہی عمل رہتا ہے۔ انہیں ہر موسم میں دشوار گزار پہاڑی راستوں سے دس ہزار کلو میٹر کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ فوجی ٹرانسپورٹ میں کرایہ پر لی گئیں ٹرکیں اور انڈین اوآئل کارپوریشن کے ایندھن کے ٹینکرز شامل ہوتے ہیں۔
اس نقل و حرکت میں پیش آنے والے مشکلات لداخ پہنچنے پر ختم نہیں ہوجاتے ہیں۔بلکہ سب سے مشکل مرحلہ ان اشیاء کو اگلی چوکیوں تک پہنچانا ہوتا ہے۔ کرگل میں لائن آف کنٹرول اور سیاچین جیسے مقامات تک پہنچنے کےلئے قابلِ گزر سڑکیں موجود نہیں ہیں۔
اشیاء کے بڑے بڑے بنڈلوں کو چھوٹے چھوٹے پیکٹوں میں بانٹنا پڑتا ہے اور ایندھن کو بیس لیٹر والے کنیستروں میں تقسیم کرنا پڑتا ہے، تاکہ انہیں اگلی چوکیوں تک پہنچایا جاسکے۔ ان اشیاء کو اُن کی منزل تک پہنچانے کے لئے ہزاروں عام مزدوروں اور گھوڑوں کو کام پر لگایا جاتا ہے۔
یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ یہ شہری (مزدور) اگلی چوکیوں پر تعینات سپاہیوں کے لئے زندگی بخش ہیں۔ مال ڈھونے والے جانور، جنہیں فوجی خچر پکارا جاتا ہے اس کام کےلئے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔
یہ جانور دُنیا کی اس دشوار گزار راستوں سے ہر موسم میں ایک ہزار کلو میٹر تک کا سفر کرتے ہیں۔ موسم گرما میں ان سپاہیوں کے لئے مختلف مقامات پر مسکن تعمیر کرنے کا کام بھی کیا جاتا ہے کیونکہ سرما میں اس طرح کا تعمیراتی کام نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لیکن شاید اس بار ایسا کرنا سب سے بڑا چیلنج ہوگا کیونکہ لداخ میں اضافی فورسز کو تعینات کیا جاچکا ہے۔ منفی درجہ حرارت میں بچاؤ کے لئے قائم کئے جانے والے پری فیبری کیٹڈ شلٹرز (مصنوعی تعمیراتی ڈھانچے) کی خریداری کرنا اور اُنہیں منزل تک پہنچانے کا کام ایک متعین مدت میں ہی کرنا ہوگا'۔
یہ صرف مال و اسباب کو بہم پہنچانے کا معاملہ نہیں بلکہ افرادی قوت کو ایک جگہ جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کا کام بھی ہے۔
موسم گرما میں دو لاکھ نفری لداخ سے واپس اور اسی تعداد میں لوگ لداخ پہنچیں گے۔ کیونکہ سپاہی چھٹیوں پر جاتے ہیں اور اُن کی تبدیلیاں ہوجاتی ہیں۔ سفر کرنے والے ان سپاہیوں کے لئے دلی اور چنڈی گڑھ میں عارضی رہائش کا انتظام کرنا ہوگا۔
اس ضمن میں انڈین ایئر فورس کا کردار غیر معمولی ہے اور اس نقل و حرکت کی وجہ سے چندی گڑھ کی ائر بیس علی الصبح سے ہی مصروف ہوجاتی ہے۔ چوں کی صبح کا آغاز ہوجاتا ہے، چھٹیوں سے لوٹ کر آنے والے سپاہیوں اور اشیاء سے لدے ٹرانسپورٹ ائر کرافٹ کا پہلا جتھہ لداخ کے لئے نکل پڑتا ہے'۔
لیہہ ائر فیلڈ اور سیاچن بیس کیمپ سے ایم آئی 17(MI-17) ، دھرو اور چیتا ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ان پُرخطر پروازوں کے تحت اشیاء ضروریہ کا اسٹاک سیاچن کی اگلی چوکیوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ ایئر فورس کی جانب سے رسد رسانی کا عمل سال بھر جاری رہتا ہے۔ جبکہ موسم سرما میں یہ باقی ملک کو لداخ کے ساتھ جوڑ کر رکھنے کا ایک واحد ذریعہ ہے۔
'ایڈوانس ونٹر سٹاکنگ'(پیشگی سرمائی ذخیرہ اندوزی) عمدگی سے کیا جانے والا ایک ایسا عمل ہے، جو نومبر تک مکمل کیا جاتا ہے۔ چونکہ موسم سرما میں ہزاروں اضافی فورسز لداخ میں قیام کریں گی، ایسی صورتحال میں شمالی کمانڈ اور لیہہ میں تعینات رسد رسانی سے جڑے افسران کو ان چیلینجز کا سامنا کرنا ہوگا، جو کہ مجھے یقین ہے، وہ کامیابی کے ساتھ کریں گے۔
مزید پڑھیں:
چین ایل اے سی پر بار بار تنازعہ کیوں کھڑا کرتا ہے؟
ان افسران کو یہ مشہور فوجی مقولہ دھیان میں رکھنا ہوگا کہ 'تفریحی کھلاڑی حربوں پر دھیان دیتے ہیں لیکن پیشہ ور کھلاڑی لاجسٹکس پر توجہ دیتے ہیں'۔