دہلی اور ملک کی معروف یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 13 دسمبر 2019 بروز جمعہ کو طلبا کی جانب سے احتجاج شروع کیا گیا تھا، جبکہ 15 دسمبر کی شب پولیس نے جامعہ کیمپس میں گھس کر لائبریری کے اندر طلبا پر کارروائی کی جس میں کئی طلبہ بری طرح زخمی ہوئے تھے۔
اس کے بعد سے ہی طلبا کی حمایت، یکجہتی اور سی اے اے کی مخالفت میں ملک کے مختلف شہروں اور شاہین باغ میں احتجاج شروع ہوگیا۔
شاہین باغ میں خواتین مظاہرین نے ذمہ داری سنبھالتے ہوئے ایک منفرد شناخت قائم کر لی۔ جس کے بعد سے ہی شاہین باغ کی طرز پر دیگر شہروں میں مظاہرے ہونا شروع ہوگئے۔
اترپردیش میں کانپور کے محمد علی پارک میں شاہین باغ ثانی کے نام سے پہلی مرتبہ احتجاج شروع ہوا۔ اس کے بعد سے گجرات احمدآباد، مدھیہ پردیش، بہار، راجستھان اور دیگر ریاستوں میں بھی شاہین باغ کی طرز پر سی اے اے کی مخالفت میں احتجاج شروع ہوگئے۔
راجستھان کے بھیلواڑہ کے گلن گری میں خواتین کے احتجاج جاری ہیں اور وہاں خواتین نے ایک نیا شاہین باغ بناکر احتجاج کرنا شروع کردیا ہے۔ اسی طرح راجستھان کے کوٹہ، جے پور اور دیگر مقامات پر خواتین کے مظاہرے ہورہے ہیں اور یہ خواتین کا دھرنا ضلعی سطح سے نیچے ہوکر پنچایت سطح تک پہنچ گیا ہے۔
اسی طرح مدھیہ پردیش کے اندورمیں کئی جگہ مظاہرے ہور ہے ہیں۔ اندور میں کنور منڈلی میں خواتین کا زبردست مظاہرہ ہورہا ہے۔ وہاں کے منتظم نے بتایا کہ وہاں پر بھی دہلی اور اترپردیش پولیس کی طرح خواتین مظاہرین کو ہٹانے کی کوشش کی تھی لیکن جیسے ہی پولیس کی ہٹانے کی خبر پہنچی تو ہزاروں کی تعداد میں خواتین پہنچ گئیں اور پولیس کو ناکام لوٹنا پڑا۔
یہاں پر بھی اہم شخصیات کا آنا جانا جاری ہے اور مختلف شعبہائے جات سے وابستہ افراد یہاں آرہے ہیں اور شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔ اندور کے علاوہ مدھیہ پردیش کے بھوپال، اجین، دیواس، مندسور اور دیگر مقامات پر بھی خواتین کے مظاہرے ہورہے ہیں۔
اترپردیش میں شہریت ترمیمی قانون، این آر سی، این پی آر کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کے لیے سب سے مخدوش جگہ بن کر ابھری ہے۔ وہاں 19 دسمبر کے مظاہرہ کے دوران 22 لوگوں کی ہلاکت ہوچکی ہے۔
گزشتہ شب بلیریا گنج (اعظم گڑھ) میں پرامن طریقے سے دھرنا دینے والی خواتین پر پولیس نے حملہ کردیا۔ رات کے اخیر پہر میں دھرنا پر بیٹھی خواتین اس وقت دعا اور نماز پڑھ رہی تھیں، پولیس نے پہلے چاروں طرف سے گھیر کر وہاں کھڑے مردوں اور لڑکوں پر لاٹھی ڈنڈا چلایا اور پھر پکڑکر لے گئے اور خواتین کو دھرنا ختم کرنے کے لیے کہا۔ اسی کے ساتھ دعوی کیا گیا کہ پولیس اینٹ چلانے لگی جس کی زد میں آنے سے ایک خاتون کے سر میں گہری چوٹ لگی، جس کی حالت خراب ہے۔
اس کے علاوہ کئی خاتون زخمی ہوئی ہیں۔ مظاہرہ میں شامل خاتون نے ویڈیو پیغام میں بتایا کہ پولیس نے قریب آکر ہوا میں فائرنگ کی اور لاٹھی برسائی اور گندی گندی گالیاں دیں۔ پولیس نے ساری خواتین کو ہٹادیا ہے یا حراست میں لے لیا ہے، اسی کے ساتھ پولیس نے پارک کو پانی سے بھر دیا ہے۔
اترپردیش میں پولیس کے ذریعہ خواتین مظاہرین کو پریشان کرنے کے واقعات میں کوئی کمی نہیں آرہی ہے لیکن خواتین کے حوصلہ اور استقلال میں بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ ان سب کے باوجود خواتین لکھنؤ کے گھنٹہ گھر میں مظاہرہ کر رہی ہیں ور ہزاروں کی تعداد میں خواتین اپنی موجودگی درج کرارہی ہیں۔
خوف و دہشت قائم کرنے کے لیے سابق گورنر عزیز قریشی سمیت متعدد لوگوں پر ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے۔ اترپردیش میں سب سے پہلے الہ آباد میں چند خواتین نے احتجاج شروع کیا تھا لیکن آج ہزاروں کی تعداد ہو چکی ہے۔
خواتین نے روشن باغ کے منصور علی پارک میں مورچہ سنبھالا۔ اس کے بعد کانپور کے چمن گنج میں محمد علی پارک میں خواتین مظاہرہ کررہی ہیں۔ اترپردیش کے ہی سنبھل میں پکا باغ میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین رات دن کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ دیوبند عیدگاہ، سہارنپور اور اترپردیش کے دیگر مقامات پر خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں۔
شاہین باغ دہلی کے بعد سب سے زیادہ مظاہرے بہار میں ہورہے ہیں اور ہر روز یہاں ایک نیا شاہین باغ بن رہا ہے، اسی کے ساتھ مردوں کا مظاہرہ بھی مسلسل ہورہا ہے۔
گیا کے شانتی باغ میں گزشتہ 29 دسمبر سے خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اس کے بعد سبزی باغ پٹنہ میں خواتین مسلسل مظاہرہ کر رہی ہیں۔
پٹنہ میں ہی ہارون نگر میں خواتین کا مظاہرہ جاری ہے۔ اس کے علاوہ بہار کے مونگیر، مظفرپور، دربھنگہ، مدھوبنی، ارریہ، سیوان، چھپرہ، بہار شریف، جہان آباد،گوپال گنج، بھینساسر نالندہ، موگلاھار نوادہ، چمپارن، سمستی پور، تاج پور، کشن گنج کے چوڑی پٹی علاقے میں، بیگوسرائے کے لکھمنیا علاقے میں زبردست مظاہرے ہو ہے ہیں۔ بہار کے ہی ضلع سہرسہ کے سمری بختیارپورسب ڈویزن کے رانی باغ میں خواتین کا بڑا مظاہرہ ہورہا ہے۔
دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، آرام پارک خوریجی، حضرت نظام الدین، قریش نگر عیدگاہ، اندر لوک، نورالہی، سیلم پور فروٹ مارکیٹ، جامع مسجد، ترکمان گیٹ، ترکمان گیٹ، بلی ماران، شاشتری پارک، کردم پوری، مصطفی آباد، کھجوری، بیری والا باغ، اور شارانی باغ سمری میں مظاہرے جاری ہیں۔
وہیں بہار میں بختیارپور ضلع سہرسہ، سبزی باغ پٹنہ، بہار، ہارون نگر پٹنہ، شانتی باغی گیا بہار، مظفرپور، ارریہ سیمانچل، بیگوسرائے ،پکڑی برواں نوادہ، مزار چوک، چوڑی پٹی کشن گنج، مگلا کھار، انصارنگر نوادہ، چمپارن، مدھوبنی، سیتامڑھی، سمستی پور، تاج پور، سیوان، گوپالگنج، کلکٹریٹ بتیا مغربی چمپارن، ہردیا چوک دیوراج، نرکٹیاگنج، اور رکسول میں احتجاج مسلسل جاری ہیں۔
مہاراشٹر میں دیکھیں تو دھولیہ، ناندیڑ، ہنگولی، پرمانی، آکولہ، پوسد، کونڈوا، پونہ، ستیہ نند ہاسپٹل اور ممبئی کے مختلف علاقوں میں مظاہرے ہورہے ہیں۔
مغربی بنگال کے سرکس پارک کلکتہ، قاضی نذرل باغ، اسلام پور میں احتجاج ہورہے ہیں۔
اترپردیش کے اسلامیہ میدان الہ آباد، روشن باغ منصور علی پارک الہ آباد، محمد علی پارک چمن گنج کانپور، گھنٹہ گھر لکھنو میں خواتین و حضرات کا مظاہرہ جاری ہے۔
وہیں راجستھان کے البرٹ ہال رام نیواس باغ جئے پور، کوٹہ بھی مظاہرے کے لیے خاصا سرخیوں میں ہیں۔
اقبال میدان بھوپال، جامع مسجد گراونڈ اندور، مانک باغ اندور،احمد آباد گجرات، منگلور کرناٹک، ہریانہ کے میوات اور یمنانگر اس کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی دھرنا جاری ہے۔ اسی کے ساتھ جارکھنڈ کے رانچی، کڈرو، لوہر دگا، دھنباد کے واسع پور، جمشید پور وغیرہ میں بھی خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں۔