ایئر انڈیا کا یہ جہاز وندے بھارت مشن کے تحت دبئی سے آرہا تھا، جس میں 10 بچوں سمیت 190 مسافر سوار تھے۔
گذشتہ 7 اگست 2020 کو شام کے 7 بج کر 41 منٹ یہ حادثہ پیش آیا۔
حادثے میں دو پائلٹ سمیت 18 افراد ہلاک ہوگئے، جب کہ 160 کے قریب افراد شدید زخمی بتائے جا رہے ہیں۔
اس حادثہ کے بارے میں ہوائی اڈہ انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ جہاز کو لینڈنگ کلیئرنس سے قبل سبھی جانکاری دی گئی تھی۔
موسم کی وجہ سے ایئرپورٹ انتظامیہ نے جہاز کو 10 ہزار فٹ کی بلندی کی طرف جانے کے لیے کہا، اس کے بعد جہاز نے اوپر چڑھنا شروع کیا۔
ہوائی جہاز نے 7000 فٹ پر چڑھنا بند کر دیا اور اترنے کی درخواست کی۔
اس کے بعد ہوائی جہاز 3600 فٹ تک نیچے کی طرف اترا۔ اس کے بعد اسے رن وے 10 کے لیے منظوری دی گئی۔
جہاز کو ایک بار پھر ساری تفصیلات فراہم کی گئیں۔
اس سلسلے میں شہری ہوا بازی کی وزارت کے سامنے جو ابتدائی رپورٹ پیش کی گئی ۔اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ لینڈنگ کے فوراً بعد ہی طیارہ رن وے سے باہر چلا گیا۔
کنٹرولر کے ذریعہ یہ دیکھا گیا کہ اے بی ایم ٹیکسی وے سی تک جہاز نیچے نہیں آیا ہے۔
چونکہ کنٹرولر رن وے کے اختتام پر طیارے کو دیکھنے کے قابل نہیں تھا لہذا فائر بیل اور سائرن کو چالو کردیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے:آندھرا کے کووڈ سینٹر میں آتشزدگی سے ہلاکت پر وزیر اعظم کا اظہارغم
رن وے کے اختتام سے آنے والی سی ایف ٹی نے رن وے پر طیارے کو دیکھنے سے قاصر ہونے کی اطلاع دی۔
مرکزی شہری ہوا بازی کے وزیر ہردیپ سنگھ پوری نے ہفتے کے روز کہا تھا کہ کوزی کوڈ میں جمعہ کے روز ایئر انڈیا ایکسپریس طیارے کے حادثے کی تحقیقات کے نتائج کو منظر عام پر لایا جائے گا۔
ہوابازی کے ماہرین کے مطابق رن وے اس طرح کا ہے جس کی وجہ سے پائلٹ کو رن وے کو لینڈنگ کے وقت دیکھنے میں پریشانی ہوتی ہے۔