ملک میں کورونا متاثرین کی تعداد ایک فرد سے بڑھ کر ایک لاکھ افراد تک پہنچنے میں 64 دن لگ گئے۔ بھارت کی صورتحال امریکہ، اٹلی، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اسپین کے مقابلے میں بہتر ہے۔ لیکن اس بات کا خدشہ ہے کہ لاک ڈاون اٹھائے جانے کے بعد یہ وائرس خطرناک طریقے سے پھیل سکتا ہے۔ نیتی آیوگ کا کہنا ہے کہ بھارت میں ستر فیصد کورونا متاثرین کا تعلق ملک کے 19 اضلاع سے ہے۔ متاثرین کی شرح اموات اور صحت یاب ہوجانے والوں کی تعداد کے حوالے سے بھی ہمارے ملک کی صورتحال امریکہ، سپین اور فرانس سے بہتر ہے۔
کورونا وبا نے ملک کے ہیلتھ کیر سیکٹر کو مزید کئی طرح کے چیلنجز سے دوچار کردیا ہے، جو پہلے ہی ناگفتہ بہہ حالت میں تھا، ۔ مرکزی سرکار نے کہا ہے کہ کورونا جیسی تباہی کا مقابلہ کرنے کے لئے دیہی اور شہری علاقوں میں مزید ہیلتھ کیر سینٹر کھولے جائیں گے۔ وزیر خزانہ کے اعلان کردہ پیکج کے دائرے میں طبی شعبے سے جڑے کئی مجوزہ اقدامات شامل کئے گئے ہیں۔ وبا کے متاثرین کا علاج و معالجہ کے لئے تمام ضلعی اسپتالوں میں خصوصی بلاک قائم کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ وباؤں کے پھیلاؤ کو زمینی سطح پر جانچنے اور متاثرین کے لئے تشخیصی مراکز قائم کرنا بھی اس پیکیج میں شامل ہے۔
کُل 736 اضلاع کے اسپتالوں میں 7,096 خصوصی بلاک قائم کئے جائیں گے۔ اگرچہ مرکزی سرکار نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ’’ایوشمان بھارت‘‘ کے تحت غریب طبقات اور پسماندگان کو طبی سہولیات بہم پہنچائی جائیں گی، تاہم کورونا کے اس بحران کا تقاضا ہے کہ ہیلتھ کیر سیکٹر میں وسیع پیمانے پر اصلاحات کی جائیں۔سنہ 2017ء کی نیشنل ہیلتھ پالیسی کے مطابق ملک کا ہیلتھ سیکٹر تباہ کن حالت میں ہے اور اس کے لئے جی ڈی پی کا محض 1.6فیصد حصہ مختص کیا جاتا ہے، جبکہ ضرورت اس بات کی ہے سال 2025ء تک اس مختص رقم کا حجم بڑھا کر اس کے لئے جی ڈی پی کا 2.5فیصد مختص کیا جائے۔
یہ مقولہ سب کو پتہ ہے کہ ’صحت ایک دولت ہے‘ لیکن حکومت اس بنیادی اصول کے تحت عوام کو معقول طبی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ وہ کروڑوں لوگ، جو غریبی اور مفلسی کا شکار ہیں، علاج و معالجے کے بڑھتے ہوئے اخراجات کو برداشت کرنے سے قاصر ہیں۔ بھارت، جہاں لاکھوں ڈاکٹروں کی قلت ہے، بھارت اُن 195 ممالک کی فہرست میں 145 ویں نمبر پر ہے، جن میں نہ ہی طبی شعبوں میں بنیادی سہولیات میسر ہیں اور نہ ہی معیاری طبی نظام موجود ہے۔
ملک کے طبی شعبے کو صیح ڈھنگ سے استوار کرنے اور تمام دیہات کے لوگوں کو وسیع پیمانے پر طبی سہولیات بہم پہنچانے کے لئے اس شعبے میں تیس ہزار کروڑ روپے خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ بجٹ میں اس ضمن میں محض 1350 کروڑ روپے مختص رکھے گئے ہیں۔ اس پس منظر میں پندرہویں فائنانس کمشن کی جانب سے ماہرین پر مشتمل قائم کی گئی پینل نے آنے والے پانچ سال کے اندر اندر ٹائر ٹو اور ٹائر تھری شہروں میں دو سو بستروں والے تین ہزار سے پانچ ہزار اسپتال قائم کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ اس پینل نے یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ مختص بجٹ کا دو تہائی حصہ پرائمری ہیلتھ کیر سروسز کے لئے بہم رکھا جائے۔ دوسری جانب ملک کی ایک تہائی آبادی ہیلتھ انشورنس کے دائرے میں نہیں ہے۔
نیتی آیوگ نے ملک میں ہیلتھ کیر شعبے پر دباؤ کم کرنے کے لئے امریکی ماڈل کو اپنانے کی صلاح دی ہے۔ اس تجویز میں کہا گیا ہے کہ ملک کا ہیلتھ سیکٹر، جو ڈوب رہا ہے، اس کو سہارا دینے کےلئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ہی ایک کار گر اور متبادل طریقہ کار ہوسکتا ہے۔ مزید یہ کہ ہیلتھ سیکٹر کو فروغ دینے کےلئے ضلع اسپتالوں کو پرائیویٹ ایجنسیز کے کنٹرول میں لایا جانا چاہیے۔ لیکن اس تجویز کو ہدف تنقید بنایا جارہا ہے۔ برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس ( این ایچ ایس) کے تحت ایک عام آدمی اور وزیر اعظم کو یکساں طور پر بہتر طبی سہولیات میسر ہیں۔
ہیلتھ کیر نطام میں کیرالا کا ماڈل پورے ملک کےلئے ایک قابل تقلید ماڈل ہے۔ کیرالا میں نچلی سطح پر اسپتالوں کے نظام کو مضبوط بنایا گیا ہے اور مختلف طبی شعبوں کے درمیان تال میل قائم کردیا گیا ہے۔ اسی نظام کی بدولت یہاں کووِڈ وبا جیسے چیلنجز سے نمٹا جارہا ہے۔ یہ ماڈل پورے ملک کے لئے ایک رہنما ماڈل ہے اور اس پر عمل در آمد کرکے ہم ایک صحت مند بھارت کا خواب تعبیر کرسکتے ہیں۔