ETV Bharat / bharat

مدھیہ پردیش کے بعد کانگریس کا مستقبل کیا ہے؟

سینیئر صحافی سنجے کپور نے مدھیہ پردیش میں آئے سیاسی بحران پر کہا کہ جیوتر آدتیہ سندھیا کا کانگریس چھوڑنا پارٹی کے لیے بڑا دھچکا ہے اور سندھیا کا بی جے پی میں شامل ہونا اپنی نشست کو بچانے کی ایک کوشش ہے۔

مدھیہ پردیش کے زلزلہ کے بعد کانگریس کا مستقبل کیا ہے؟
مدھیہ پردیش کے زلزلہ کے بعد کانگریس کا مستقبل کیا ہے؟
author img

By

Published : Mar 11, 2020, 7:08 PM IST

مدھیہ پردیش میں گزشتہ چند ہفتوں سے کمل ناتھ کی قیادت والی کانگریس حکومت کو داخلی تنازعے سے جھوجھنا پڑ رہا ہے۔حکومت کو اس وقت عدم استحکام کے خطرے کا سامنا کرنا پڑا جب انکے 14رکن اسمبلی کو دہلی کے نزدیک گروگرام کے ایک ہوٹل میں لے جایا گیا تھا ۔تاہم تازہ خطرہ یہ بنا ہوا تھا کہ کانگریس کی حکومت گر سکتی ہے جو واضح طور پر متوقع تھی۔حتی کہ کمل ناتھ شرد پوار جیسا انتظام نہیں کرتے جیسا شرد پوار نے بھوپال میں کیا ہے

اگر ہم حالیہ صورت حال کا ذکر کریں تو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کمل ناتھ اپنی کرسی گنواتے ہوئے نظر آرہے ہیں کیونکہ جوتیر آدتیہ سندھیا نے کانگریس سے استعفی دے دیا ہے اور وہ اپنے ساتھ 22 رکن اسمبلی کو لے جانے کا دعوی کررہے ہیں۔یہ بھی یاد رکھا جائے کہ جیوتیر آدتیہ سندھیا نے سنہ 2018 کے اسمبلی انتخابات جیت جانے پر خود کو بطور ریاست کے وزیر اعلی پیش کیا تھا۔

کانگریس جسکے پاس کوئی 99 رکن اسمبلی رہ گئے ہیں اب اسے 206ممبران کے اس مقطوعہ ایوان میں 104ممبران کی ضرورت ہے۔حالانکہ کمل ناتھ کو اب بھی اپنی حکومت کو بچانے کی امید ہے اور اسی لئے انہوں نے بی جے پی ہی کی طرح اپنے رکن اسمبلی کو ایک ہوٹل میں چھپا یا ہوا تھا۔البتہ یہ باالآخر ایوانِ اسمبلی میں ہونے والا ایک ایسا مقابلہ ہوگا جس میں کروڑوں روپے اور مسابقتی سرکاروں کی جانب سے زور جبر کے طریقہ کار کو استعمال کرکے رکن اسمبلی کو اپنی پارٹی کے ساتھ وفاداری تبدیل کرنے پر راضی کیا جائے گا۔یہ بلا حساب پیسے کے بل پر سیاسی غیر اخلاقی کی ایک اور مایوس کن کہانی ہوگی، پارٹیوں کی جانب سے حکومت بنانے یا گرانے کیلئے گری ہوئی حرکتوں کا تماشا ہوگا۔

بی جے پی جو ابتدا میں ' نو ہینڈس پالیسی' پر کاربند ہونے کا تاثر دے رہی تھی، اب وہ نہ صرف حکومت گرانے میں لگی ہے بلکہ کئی ریاستوں میں انتخابات ہار جانے کے نتیجے میں پیداشدہ امکانات کے برعکس راجیہ سبھا میں زیادہ سے زیادہ نشستوں پر قبضہ کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ رکن اسمبلی کو اپنی طرف کرنے میں مصروف ہے۔دراصل بی جے پی راجیہ سبھا میں اکثریت حاصل کرنے کیلئے بے چین ہے اور اپنے بھاری مالی و دیگر ذرائع سے جھارکھنڈ، راجھستھان اور یہاں تک کہ مہاراشٹرا میں حزبِ اختلاف کی حکومت کو گرانے کا خوف پیدا کررہی ہے۔تاہم دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ پارٹی اپنے ان عزائم میں کہاں تک کامیاب ہوتی ہے۔

یہ حقیقت، کہ پیسہ سرکاروں کو گرانے کی سازشوں میں ایک اہم چیز ہے۔اس کا ثبوت کانگریس میں واپس لوٹ آنے والے ایک رکن پارلیمان کا یہ انکشاف ہے کہ انہیں 25کروڑ روپے کی پیشکش کی گئی تھی جبکہ ایک اور دعویٰ میں یہ رقم100کروڑ بتائی گئی ہے۔ایک ایسے وقت پر جب معیشت زبردست زوال سے گزر رہی ہو ایسے میں عوامی نمائندگان کی اس طرح خریدوفروخت نرخ بازارو ہے۔

جہاں متعدد رکن اسمبلی انتخابات جیتنے کیلئے بھاری سرمایہ لگاچکے ہوتے ہیں،ان کیلئے پیسہ قوت کشش کی طرح کام کرتا ہے۔ وہیں کئی ممبران کو یہ بات بھی کڑھتی رہتی ہے کہ انکی پارٹیاں انکے نوجوان لیڈروں کو اپنی سیاسی صلاحیتیں آزمانے کا موقعہ نہیں دیتی ہیں۔جوتیرادتیہ سندھیا راہل گاندھی کے اچھے دوست اور حامی ہیں اور وہ اپنے لئے پارٹی میں کوئی بڑا رول مانگتے آئے ہیں لیکن کمل ناتھ اور دِگوجے سنگھ کی مشترکہ قیادت نے انہیں کسی بھی بڑی ذمہ داری سے باہر ہی رکھا ہے۔

انہوں نے کئی ماہ قبل اپنے ٹویٹر ہینڈل پر کانگریس کے ساتھ اپنا تعلق توڑ دیا تھا جس پر کئیوں کی بھویں چڑھی ہوئی تھیں تاہم وہ اپنے اگلے اقدام کے حوالے سے مخمصے کا شکار رہے۔بعض اوقات انہوں نے دفعہ370کی تنسیخ پر کانگریس کے موقف کی تنقید کی اور بعض اوقات وہ دہلی کے حالیہ فسادات کے دوران پیش آمدہ واقعات پر غم و غصہ کا اظہار کرتے نظر آہے۔

جہاں انہوں نے بی جے پی حکومت کی معاشرے کو بانٹنے والے اسکے اس طرزِ عمل کی تنقید کی۔ایسا محسوس ہوا کہ وہ کوئی گہرے نظریات والے نہیں بلکہ بڑی حد تک موقعہ پرست سیاستدان ہیں۔سندھیا جنکی دادی بی جے پی کے بانیوں میں سے ایک تھیں اور جنکی دو آنٹیاں پارٹی میں سینئر پوزیشنپر میں فائز ہیں۔ایسے میں وہ سنہ 2019میں لوک سبھا کا انتخاب ہارنے کے بعد راجیہ سبھا میں جگہ پانے کی کوشش میں ہیں۔

سندھیا کو بی جے پی کے ایک عام امیدوار سے ایک لاکھ ووٹوں سے شکست ملی تھی، جنکی مہم گوالیار محل کے خلاف تھی ۔ اس شکست سے انکی یہ تشویش گہری ہوگئی کہ جہاں سے انہوں نے تین بار کامیابی حاصل کی تھی وہ اب ان کے لیے مزید ایک محفوظ نشست نہیں رہی ہے اور انہیں سنہ 2019کے نتائج کے دوبارہ دہرائے جانے سے قبل ہی بچاؤ کارروائی کرنی ہوگی۔انکی بی جے پی میں شرکت اپنی نشست کو بچانے کی ایک کوشش ہے۔

کمل ناتھ جو ہار ماننے پر آمادہ نہیں ہیں وہ رکن اسمبلی کو واپس لانے کی چال جانتے ہیں۔انہوں نے سندھیاکے دباؤ میں آنے سے انکار کرتے ہوئے پارٹی صدر کو بتادیا ہے کہ وہ گوالیار ہاوس کے وارث کی بجائے پرینکا گاندھی کو راجیہ سبھا کی نشست دیں گے۔دِگوجے سنگھ جنہوں نے کبھی بھی گوالیار ہاوس یا مہاراج کے تئیں پسندیدگی ظاہر نہیں کی ہے انہوں نے اس حوالے سے کمل ناتھ کی اس بات کی حمایت کی ہے۔

ظاہری طور پر ایسا لگتا ہے کہ سندھیا کا پارٹی چھوڑ کر جانے سے کانگریس کو بڑا دھچکا لگے گا۔جیسا کہ کرناٹک میں17 رکن اسمبلی کے مخالف جماعت بی جے پی میں جانے سے دھچکا لگا تھا۔یہ حقیقت ہے کہ بی جے پی ان(کانگریس ممبران)میں سے کئیوں کو شکار کرپائی ہے۔وہیں امیدواروں کے حوالے سے کانگریس کے انتخاب اور پارٹی قیادت کو برقرار رکھنے کی صلاحیت کی کمی کی عکاسی کرتی ہے۔جیتنے کی صلاحیت کو معیار بناکر کانگریس پارٹی کئی بار ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دیتی آئی ہے جو ماضی میں بی جے پی یا جنتا دل(ایس)میں رہ چکے ہیں۔ایسے رکن اسمبلی کو واپس بی جے پی میں جانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی ہے اور اسی بات سے حوصلہ پاتے ہوئے ہندتوا حامی پارٹی کو لگتا ہے کہ وہ کہیں سے بھی رکن اسمبلی کو کاٹ سکتی ہے۔

یہ صورتحال کانگریس کو کہاں لاکے چھوڑتی ہے؟

سنہ 2019 کے پارلیمانی انتخابات کے بعد سے کانگریس ایک بنا ملاح کے کشتی کی طرح ہے۔راہل گاندھی نے انتخابات میں بھاری ناکامی کی ذمہ داری لیتے ہوئے صدارت چھوڑی دی اور پارٹی صدر کیلئے الیکشن کرانے کی درخواست کی جسے تاہم انکی والدہ سونیا گاندھی کے آس پاس رہنے والے انکے حواریوں نے قبول نہیں کیااور خود سونیا گاندھی کو اگلے صدر کے انتخاب تک صدارت سنبھالنے کیلئے کہا گیا۔

سونیا گاندھی بیمار ہیں انہوں نے دہلی انتخابات میں پارٹی کیلئے مہم نہیں چلائی بلکہ پارٹی کے ووٹوں کو عام آدمی پارٹی کی جانب جانے دیا اور بی جے پی کو مظبوط اپوزیشن دینے کا بہانہ بنایا۔اس ناقص حربے سے کچھ 'منقطع لبرلز 'نے وقتی طور کانگریس کی تعریفیں تو کی ہیں لیکن کانگریس کے مستقبل کو مزید دھندلا کردیا۔کانگریس کے ووٹ کی شرح4 فیصد تک گر گئی اور پھرجب بعض کانگریس لیڈروں نے عام آدمی پارٹی کی حالیہ جیت کی تعریفیں کیں تو کئی لوگ یہ سوچ کر حیران ہورہے تھے کہ قدیم ترین اس پارٹی کو عام آدمی پارٹی کے جیت جانے سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔

کانگریس کو فکر بس یہ ہے کہ بی جے پی کی مخالفت کیسے کی جائے۔کئی لوگوں کا خیال ہے کہ شہری ترمیمی بل کے خلاف جاری احتجاج سے ملک بھر میں حکمران جماعت کے خلاف ہوا کھڑا ہوگئی ہے جسکا تاہم فقط ایک سیاسی پارٹی ہی فائدہ اٹھاسکتی ہے۔دیگروں کا خیال ہے کہ کانگریس،جس نے آزادی کے بعد سے کبھی کسی احتجاج کی قیادت نہیں کی ہے،اسے اگلے پارلیمانی انتخاب کیلئے تیار رہنا ہوگا جو حالانکہ ابھی چار سال کی دوری پر ہے۔

اس دلیل میں وزن تو ہوسکتا ہے لیکن کانگریس اس ابہام کی شکار ہے کہ اسکی اور اسکے نظریہ کی قیادت کسے کرنی چاہیئے۔راہل گاندھی کو انکے ہدایت کاروں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ اگر پارٹی کو اتخابات میں فتح حاصل کرناچاہتے ہیں تو پھر انہیں اقلیتوں سے فاصلے پر رہنا چاہیئے، انہوں نے گجرات میں ایسا ہی کیا۔انہوں نے وہاں کے ہر مذہبی استھان پر حاظری دینے کا جنون ظاہر کیا لیکن انہوں نے ایک بھی ٹوپی والے کے ساتھ سیلفی نہ لینے کو یقینی بنایا۔یہی ابہام وجہ ہے کہ کانگریس پارٹی سلیقے سے فیصلہ ہی نہیں کر پارہی ہے کہ اقلیتوں کے حوالے سے وہ کیا کرنا چاہتی ہے۔ اگر پارٹی ملک کی اقلیتوں کے ساتھ کھڑی نہیں رہ پاتی ہے تو یہ بی جے پی سے مختلف نہیں ہے جو مسلم ووٹ کو بے وقعت کرنے میں فخر محسوس کرتی ہے۔

ملک بھر میں شہری ترمیمی قانون اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنزکے خلاف احتجاج جاری ہے لیکن کانگریس نے اس حوالے سے ابھی تک صرف ہونٹ ہلائے ہیں۔گاندھیوں کا یہ ڈر ہے کہ کہیں بی جے پی انہیں مسلمانوں کے ارد گرد گھومنے کا طعنہ نہ دے اس لیے شاہین باغ جیسی ان جگہوں کا دورہ کرنے میں انہوں نے شرم محسوس کی ہے جہاں خواتین سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔

اگر کانگریس کو پارلیمنٹ کے باہر بی جے پی کے خلاف مربوط اپوزیشن کھڑی کرنی ہے تو پھر اسے بی جے پی اور اسکی نظریاتی مادر راشٹریہ سیوم سیوک سنگ (آر ایس ایس)کی پکڑ کو چھڑانا ہوگااور اپنی اس جامع سیاست کو بحال کرنا ہوگا جس سے ملک کو انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے میں مدد ملی تھی۔تاہم اگر کانگریسیوں کا موقعہ پرستانہ طرزِ عمل جاری رہا تو پھر اسکے پاس بی جے پی کے ساتھ یہ مشکل لڑائی لڑنے اور ان سے جیتنا ناممکن ہوگا ۔یہی وجوہات ہیں کہ راجستھان اورچھتیس گڑھ میں کانگریس کی حکومتیں بی جے پی کا شکار ہوکر کبھی بھی گرائے جانے کے خطرات کے سائے میں رہیں گی۔

مدھیہ پردیش میں گزشتہ چند ہفتوں سے کمل ناتھ کی قیادت والی کانگریس حکومت کو داخلی تنازعے سے جھوجھنا پڑ رہا ہے۔حکومت کو اس وقت عدم استحکام کے خطرے کا سامنا کرنا پڑا جب انکے 14رکن اسمبلی کو دہلی کے نزدیک گروگرام کے ایک ہوٹل میں لے جایا گیا تھا ۔تاہم تازہ خطرہ یہ بنا ہوا تھا کہ کانگریس کی حکومت گر سکتی ہے جو واضح طور پر متوقع تھی۔حتی کہ کمل ناتھ شرد پوار جیسا انتظام نہیں کرتے جیسا شرد پوار نے بھوپال میں کیا ہے

اگر ہم حالیہ صورت حال کا ذکر کریں تو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کمل ناتھ اپنی کرسی گنواتے ہوئے نظر آرہے ہیں کیونکہ جوتیر آدتیہ سندھیا نے کانگریس سے استعفی دے دیا ہے اور وہ اپنے ساتھ 22 رکن اسمبلی کو لے جانے کا دعوی کررہے ہیں۔یہ بھی یاد رکھا جائے کہ جیوتیر آدتیہ سندھیا نے سنہ 2018 کے اسمبلی انتخابات جیت جانے پر خود کو بطور ریاست کے وزیر اعلی پیش کیا تھا۔

کانگریس جسکے پاس کوئی 99 رکن اسمبلی رہ گئے ہیں اب اسے 206ممبران کے اس مقطوعہ ایوان میں 104ممبران کی ضرورت ہے۔حالانکہ کمل ناتھ کو اب بھی اپنی حکومت کو بچانے کی امید ہے اور اسی لئے انہوں نے بی جے پی ہی کی طرح اپنے رکن اسمبلی کو ایک ہوٹل میں چھپا یا ہوا تھا۔البتہ یہ باالآخر ایوانِ اسمبلی میں ہونے والا ایک ایسا مقابلہ ہوگا جس میں کروڑوں روپے اور مسابقتی سرکاروں کی جانب سے زور جبر کے طریقہ کار کو استعمال کرکے رکن اسمبلی کو اپنی پارٹی کے ساتھ وفاداری تبدیل کرنے پر راضی کیا جائے گا۔یہ بلا حساب پیسے کے بل پر سیاسی غیر اخلاقی کی ایک اور مایوس کن کہانی ہوگی، پارٹیوں کی جانب سے حکومت بنانے یا گرانے کیلئے گری ہوئی حرکتوں کا تماشا ہوگا۔

بی جے پی جو ابتدا میں ' نو ہینڈس پالیسی' پر کاربند ہونے کا تاثر دے رہی تھی، اب وہ نہ صرف حکومت گرانے میں لگی ہے بلکہ کئی ریاستوں میں انتخابات ہار جانے کے نتیجے میں پیداشدہ امکانات کے برعکس راجیہ سبھا میں زیادہ سے زیادہ نشستوں پر قبضہ کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ رکن اسمبلی کو اپنی طرف کرنے میں مصروف ہے۔دراصل بی جے پی راجیہ سبھا میں اکثریت حاصل کرنے کیلئے بے چین ہے اور اپنے بھاری مالی و دیگر ذرائع سے جھارکھنڈ، راجھستھان اور یہاں تک کہ مہاراشٹرا میں حزبِ اختلاف کی حکومت کو گرانے کا خوف پیدا کررہی ہے۔تاہم دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ پارٹی اپنے ان عزائم میں کہاں تک کامیاب ہوتی ہے۔

یہ حقیقت، کہ پیسہ سرکاروں کو گرانے کی سازشوں میں ایک اہم چیز ہے۔اس کا ثبوت کانگریس میں واپس لوٹ آنے والے ایک رکن پارلیمان کا یہ انکشاف ہے کہ انہیں 25کروڑ روپے کی پیشکش کی گئی تھی جبکہ ایک اور دعویٰ میں یہ رقم100کروڑ بتائی گئی ہے۔ایک ایسے وقت پر جب معیشت زبردست زوال سے گزر رہی ہو ایسے میں عوامی نمائندگان کی اس طرح خریدوفروخت نرخ بازارو ہے۔

جہاں متعدد رکن اسمبلی انتخابات جیتنے کیلئے بھاری سرمایہ لگاچکے ہوتے ہیں،ان کیلئے پیسہ قوت کشش کی طرح کام کرتا ہے۔ وہیں کئی ممبران کو یہ بات بھی کڑھتی رہتی ہے کہ انکی پارٹیاں انکے نوجوان لیڈروں کو اپنی سیاسی صلاحیتیں آزمانے کا موقعہ نہیں دیتی ہیں۔جوتیرادتیہ سندھیا راہل گاندھی کے اچھے دوست اور حامی ہیں اور وہ اپنے لئے پارٹی میں کوئی بڑا رول مانگتے آئے ہیں لیکن کمل ناتھ اور دِگوجے سنگھ کی مشترکہ قیادت نے انہیں کسی بھی بڑی ذمہ داری سے باہر ہی رکھا ہے۔

انہوں نے کئی ماہ قبل اپنے ٹویٹر ہینڈل پر کانگریس کے ساتھ اپنا تعلق توڑ دیا تھا جس پر کئیوں کی بھویں چڑھی ہوئی تھیں تاہم وہ اپنے اگلے اقدام کے حوالے سے مخمصے کا شکار رہے۔بعض اوقات انہوں نے دفعہ370کی تنسیخ پر کانگریس کے موقف کی تنقید کی اور بعض اوقات وہ دہلی کے حالیہ فسادات کے دوران پیش آمدہ واقعات پر غم و غصہ کا اظہار کرتے نظر آہے۔

جہاں انہوں نے بی جے پی حکومت کی معاشرے کو بانٹنے والے اسکے اس طرزِ عمل کی تنقید کی۔ایسا محسوس ہوا کہ وہ کوئی گہرے نظریات والے نہیں بلکہ بڑی حد تک موقعہ پرست سیاستدان ہیں۔سندھیا جنکی دادی بی جے پی کے بانیوں میں سے ایک تھیں اور جنکی دو آنٹیاں پارٹی میں سینئر پوزیشنپر میں فائز ہیں۔ایسے میں وہ سنہ 2019میں لوک سبھا کا انتخاب ہارنے کے بعد راجیہ سبھا میں جگہ پانے کی کوشش میں ہیں۔

سندھیا کو بی جے پی کے ایک عام امیدوار سے ایک لاکھ ووٹوں سے شکست ملی تھی، جنکی مہم گوالیار محل کے خلاف تھی ۔ اس شکست سے انکی یہ تشویش گہری ہوگئی کہ جہاں سے انہوں نے تین بار کامیابی حاصل کی تھی وہ اب ان کے لیے مزید ایک محفوظ نشست نہیں رہی ہے اور انہیں سنہ 2019کے نتائج کے دوبارہ دہرائے جانے سے قبل ہی بچاؤ کارروائی کرنی ہوگی۔انکی بی جے پی میں شرکت اپنی نشست کو بچانے کی ایک کوشش ہے۔

کمل ناتھ جو ہار ماننے پر آمادہ نہیں ہیں وہ رکن اسمبلی کو واپس لانے کی چال جانتے ہیں۔انہوں نے سندھیاکے دباؤ میں آنے سے انکار کرتے ہوئے پارٹی صدر کو بتادیا ہے کہ وہ گوالیار ہاوس کے وارث کی بجائے پرینکا گاندھی کو راجیہ سبھا کی نشست دیں گے۔دِگوجے سنگھ جنہوں نے کبھی بھی گوالیار ہاوس یا مہاراج کے تئیں پسندیدگی ظاہر نہیں کی ہے انہوں نے اس حوالے سے کمل ناتھ کی اس بات کی حمایت کی ہے۔

ظاہری طور پر ایسا لگتا ہے کہ سندھیا کا پارٹی چھوڑ کر جانے سے کانگریس کو بڑا دھچکا لگے گا۔جیسا کہ کرناٹک میں17 رکن اسمبلی کے مخالف جماعت بی جے پی میں جانے سے دھچکا لگا تھا۔یہ حقیقت ہے کہ بی جے پی ان(کانگریس ممبران)میں سے کئیوں کو شکار کرپائی ہے۔وہیں امیدواروں کے حوالے سے کانگریس کے انتخاب اور پارٹی قیادت کو برقرار رکھنے کی صلاحیت کی کمی کی عکاسی کرتی ہے۔جیتنے کی صلاحیت کو معیار بناکر کانگریس پارٹی کئی بار ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دیتی آئی ہے جو ماضی میں بی جے پی یا جنتا دل(ایس)میں رہ چکے ہیں۔ایسے رکن اسمبلی کو واپس بی جے پی میں جانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی ہے اور اسی بات سے حوصلہ پاتے ہوئے ہندتوا حامی پارٹی کو لگتا ہے کہ وہ کہیں سے بھی رکن اسمبلی کو کاٹ سکتی ہے۔

یہ صورتحال کانگریس کو کہاں لاکے چھوڑتی ہے؟

سنہ 2019 کے پارلیمانی انتخابات کے بعد سے کانگریس ایک بنا ملاح کے کشتی کی طرح ہے۔راہل گاندھی نے انتخابات میں بھاری ناکامی کی ذمہ داری لیتے ہوئے صدارت چھوڑی دی اور پارٹی صدر کیلئے الیکشن کرانے کی درخواست کی جسے تاہم انکی والدہ سونیا گاندھی کے آس پاس رہنے والے انکے حواریوں نے قبول نہیں کیااور خود سونیا گاندھی کو اگلے صدر کے انتخاب تک صدارت سنبھالنے کیلئے کہا گیا۔

سونیا گاندھی بیمار ہیں انہوں نے دہلی انتخابات میں پارٹی کیلئے مہم نہیں چلائی بلکہ پارٹی کے ووٹوں کو عام آدمی پارٹی کی جانب جانے دیا اور بی جے پی کو مظبوط اپوزیشن دینے کا بہانہ بنایا۔اس ناقص حربے سے کچھ 'منقطع لبرلز 'نے وقتی طور کانگریس کی تعریفیں تو کی ہیں لیکن کانگریس کے مستقبل کو مزید دھندلا کردیا۔کانگریس کے ووٹ کی شرح4 فیصد تک گر گئی اور پھرجب بعض کانگریس لیڈروں نے عام آدمی پارٹی کی حالیہ جیت کی تعریفیں کیں تو کئی لوگ یہ سوچ کر حیران ہورہے تھے کہ قدیم ترین اس پارٹی کو عام آدمی پارٹی کے جیت جانے سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔

کانگریس کو فکر بس یہ ہے کہ بی جے پی کی مخالفت کیسے کی جائے۔کئی لوگوں کا خیال ہے کہ شہری ترمیمی بل کے خلاف جاری احتجاج سے ملک بھر میں حکمران جماعت کے خلاف ہوا کھڑا ہوگئی ہے جسکا تاہم فقط ایک سیاسی پارٹی ہی فائدہ اٹھاسکتی ہے۔دیگروں کا خیال ہے کہ کانگریس،جس نے آزادی کے بعد سے کبھی کسی احتجاج کی قیادت نہیں کی ہے،اسے اگلے پارلیمانی انتخاب کیلئے تیار رہنا ہوگا جو حالانکہ ابھی چار سال کی دوری پر ہے۔

اس دلیل میں وزن تو ہوسکتا ہے لیکن کانگریس اس ابہام کی شکار ہے کہ اسکی اور اسکے نظریہ کی قیادت کسے کرنی چاہیئے۔راہل گاندھی کو انکے ہدایت کاروں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ اگر پارٹی کو اتخابات میں فتح حاصل کرناچاہتے ہیں تو پھر انہیں اقلیتوں سے فاصلے پر رہنا چاہیئے، انہوں نے گجرات میں ایسا ہی کیا۔انہوں نے وہاں کے ہر مذہبی استھان پر حاظری دینے کا جنون ظاہر کیا لیکن انہوں نے ایک بھی ٹوپی والے کے ساتھ سیلفی نہ لینے کو یقینی بنایا۔یہی ابہام وجہ ہے کہ کانگریس پارٹی سلیقے سے فیصلہ ہی نہیں کر پارہی ہے کہ اقلیتوں کے حوالے سے وہ کیا کرنا چاہتی ہے۔ اگر پارٹی ملک کی اقلیتوں کے ساتھ کھڑی نہیں رہ پاتی ہے تو یہ بی جے پی سے مختلف نہیں ہے جو مسلم ووٹ کو بے وقعت کرنے میں فخر محسوس کرتی ہے۔

ملک بھر میں شہری ترمیمی قانون اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنزکے خلاف احتجاج جاری ہے لیکن کانگریس نے اس حوالے سے ابھی تک صرف ہونٹ ہلائے ہیں۔گاندھیوں کا یہ ڈر ہے کہ کہیں بی جے پی انہیں مسلمانوں کے ارد گرد گھومنے کا طعنہ نہ دے اس لیے شاہین باغ جیسی ان جگہوں کا دورہ کرنے میں انہوں نے شرم محسوس کی ہے جہاں خواتین سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔

اگر کانگریس کو پارلیمنٹ کے باہر بی جے پی کے خلاف مربوط اپوزیشن کھڑی کرنی ہے تو پھر اسے بی جے پی اور اسکی نظریاتی مادر راشٹریہ سیوم سیوک سنگ (آر ایس ایس)کی پکڑ کو چھڑانا ہوگااور اپنی اس جامع سیاست کو بحال کرنا ہوگا جس سے ملک کو انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے میں مدد ملی تھی۔تاہم اگر کانگریسیوں کا موقعہ پرستانہ طرزِ عمل جاری رہا تو پھر اسکے پاس بی جے پی کے ساتھ یہ مشکل لڑائی لڑنے اور ان سے جیتنا ناممکن ہوگا ۔یہی وجوہات ہیں کہ راجستھان اورچھتیس گڑھ میں کانگریس کی حکومتیں بی جے پی کا شکار ہوکر کبھی بھی گرائے جانے کے خطرات کے سائے میں رہیں گی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.