جون ایلیا اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبانیں جانتے تھے۔
ان کی مطبوعہ نثری کتب میں حسن بن صباح ، جوہر صقلی اور فرنود کے نام شامل ہیں
ان کے شعری مجموعے
شاید
یعنی
لیکن
گمان
گویا اور راموز کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔
حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر 2000ءمیں انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
8 نومبر 2002ءکو جون ایلیا کراچی میں وفات پاگئے ۔
ان کی لوح مزار پر انھی کا یہ شعر تحریر ہے
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں
جون ایلیا کے چند اشعار
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
کتنی دل کش ہو تم کتنا دلجو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
میری بانہوں میں بہکنے کی سزا بھی سن لے
اب بہت دیر میں آزاد کروں گا تجھ کو
کیا کہا عشق جاودانی ہے!
آخری بار مل رہی ہو کیا
کیا ستم ہے کہ اب تری صورت
غور کرنے پہ یاد آتی ہے