قومی دارالحکومت دہلی کے لودھی شاہراہ پر واقع 'انڈیا انٹرنیشنل سینٹر' میں مرزا اسد اللہ خان غالب کے یوم پیدائش کی مناسبت سے جشن غالب کا اہتمام کیا گیا جس میں اردو زبان و ادب کے معروف شعرا نے اپنا کلام پیش کرتے ہوئے مرزا غالب کو خراج عقیدت پیش کیا۔
اس مشاعرہ کا اہتمام 'غالب انسٹی ٹیوٹ اور جشن ادب' نے مشترکہ طور پر کیا جس کی صدارت اردو دنیا کے معروف عالمی شاعر فرحت احساس نے کی جبکہ شاعر انس فیضی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔
اس مشاعرے میں سب سے خاص بات یہ رہی کہ تمام شعراء نے مرزا غالب کی زمین پر اپنا کلام پیش کیا جسے مشاعرے میں موجود سامعین نے خوب سراہا۔
قابل ذکر ہے کہ مرزا اسد اللہ خان غالب کے 223ویں یوم پیدائش کی مناسبت سے ملک و بیرون ملک میں اس طرح کی محفلوں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ تاہم اس دوران کووڈ 19 کی رہنما ہدایات کی پاسداری کا مکمل پاس رکھا گیا۔
گھر تو بنالیا ہے مگر گھر نہیں ہوں میں
اکثر ہوں اپنے آپ میں اکثر نہیں ہوں میں
کچھ خاص مجھ میں بھی شاید ضرور ہے
یوں ہی تو اس نگاہ میں اکثر نہیں ہوں میں
کل پاؤں کہہ رہا تھا نہیں ہوں میں تیرا پاؤں
اب سر یہ کہہ رہا ہے تیرا سر نہیں ہوں میں
یہ دیکھ آستین بدن میں نے جھاڑ لی
تو جس سے ڈر رہا تھا وہ خنجر نہیں ہوں میں
میں کیا کروں گا دست تصوف پے بیٹھ کر
مجذوب خاک و خان ہوں کلندر نہیں ہوں میں
غالب کو تھا یقین پر احساس کیا کرے
کیسے کہے کہ حرف مقرر نہیں ہوں میں
لاؤں میں کہاں سے بھلا انداز بیاں اور
منصف کی زباں اور ہے اور میری زباں اور
یہ درد سمجھتا نہیں آداب زمانہ
کوشش ہو چھپانے کی تو عیاں اور
قسمت کا لکھا مان لے تھوڑے سے زیاں
جائے گا عدالت میں تو پائے گا زیاں اور
تفصیل بیاں کرتا ہے کیوں اپنے عمل کی
اس طرح تو ہر شخص پے گزرے گا گماں اور
منزل پے پہنچ کر نہ ہوا دل جو میرا خوش
پوچھی جو وجہ اس نے کہا اور اماں اور
تم سے بھی کہاں مجھکو سماعت کی توقع
مجھ میں بھی کہاں باقی ہے اب تاب فگاں اور
یہ ظلم کے شعلے ہیں فقط پھوں سے بجھیں گے
اشکوں سے بجھاؤگے تو اٹھے گا دھواں اور
دریا تلاشنا کہیں سحرا تلاشنا
مشکل خود کے جیسی ہی دنیا تلاشنا
دیکھے ہوئے سے خواب سا اک خواب دیکھنا
پھر خواب میں بھی خواب کے جیسا تلاشنا
تصویر ساتھ بیٹھ کے تصویر دیکھنا
تصویر دیکھنے کا سلیقہ سلاشنا
شوق نگاہ دید کا حاصل ہے آئینہ
اس بار آئینے کے مقابل ہے آئینہ
سچائیوں کے روپ سے واقف تو ہے مگر
لیکن پس غبار سے غافل آئینہ
احساس تشنگی کا ہے میلہ لگا ہوا
یعنی درون ذات کا ساحل ہے آئینہ
جی بھر کے دیکھنے کی تمنا ہی رہ گئی
مقتول کہہ رہا تھا کہ قاتل ہے آئینہ
میری نظر سے دیکھیے اپنے جمال کو
سو بار کہہ چکا ہے کہ باطل ہے آئنیہ
نہ آرزو نہ جستجو تو گفتگو کہاں
جو میں ہی میں نہیں رہا تو بھی تو جہاں
ٹپکا جو یہاں کبھی غالب کی آنکھ سے
اب ان رگوں میں دوڑتا ویسا لہو کہاں
تصویر کی نظر سے تجھے دیکھتا ہوں میں
تو روبرو تو ہے میرے پر ہو بہو کہاں
پھول مجھے برسانے دو
امن کے نغمیں گانے دو
اک میں اک آئینہ
آپ کے ہیں دیوانے دو
ہم کو پینے سے روکیں
خود کے ہیں میخانے دو
لاکھوں پنچھی بھوکے ہیں
میرے ہاتھ میں دانے دو
مجھ کو ٹھکرایا تھا جس نے کبھی گنجا کہہ کر
اس کے شوہر کو جو دیکھوں تو خوشی ہوتی ہے
دیکھ لو جو دیکھتی ہو خواب شاہ رخ خان کے
بعد میں خالہ کے لڑکے سے لگن ہونا ہی ہے