دارلحکومت دہلی میں منگل کے روز مولانا ارشد مدنی کی سربراہی والی جمعیةعلماءہند کی مجلس عاملہ کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں بابری مسجد مقدمہ ، این آر سی، کشمیر،آسام شہریت معاملہ سے متعلق پیش رفت کا جائزہ لیا گیا اور ملک کے موجودہ حالات اور قانون وانتظام کی بدتر صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیاگیا۔
اس موقع پردیگراہم ملی،سماجی اورعالم عرب کے مسائل پر تفصیلی غوروخوض ہوا، اجلاس میں جمعیة کے ارکان نے ملک کے موجودہ حالات پر کھل کر تبادلہ خیال کیا۔
اس موقع پر صدر جمعیةعلماءہند مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ملک میں جس طرح کے حالات پیدا کردیے گئے ہیں اس سے کشمیر سے لے کرکنیاکماری تک لوگ خوف وہراس اور مایوسی میں مبتلا ہیں، ایک طرف جہاں آئین وقانون کی بالادستی کو ختم کرنے کی سازش ہورہی ہے وہیں عدل وانصاف کی روشن روایت کوبھی ختم کردینے کی خطرناک روش اختیارکی جارہی ہے۔
انہوں نے مزیدکہاکہ’ملک کی اقلیتوں کو مطمئن کرنا وزیر اعظم کی ذمہ داری ہے کیوں کہ وزیر اعظم پورے ملک کا ہوتا ہے نہ کہ کسی پارٹی کا، آج ہمارے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ملک کسی خاص مذہب کے نظریہ کی بینادپر چلے گا یا آئین و سیکولرزم کے اصولوں پر۔؟
اس اجلاس میں مندرجہ ذیل قراردادیں منظور ہوئیں۔
1) بابری مسجد تنازعہ سے متعلق اس قرارداد میں کہاگیا کہ بابری مسجد قانون اور عدل وانصاف کی نظرمیں ایک مسجد تھی اور آج بھی شرعی لحاظ سے مسجد ہے اور قیامت تک مسجد ہی رہے گی، چاہے بزورحکومت وطاقت اسے کوئی بھی شکل اور نام دے دیا جائے، اس لئے کسی فرد اور جماعت کو یہ حق نہیں ہے کہ کسی متبادل کی امید میں مسجد سے دستبردارہوجائے۔
2)جمعیةعلماءہند کی مجلس عاملہ کا یہ اجلاس کشمیر کے موجودہ حالات پر اپنی تشویش کااظہارکرتاہے، دفعہ 370کے منسوخی کے بعد سے آج تک تین ماہ سے زیادہ کا وقت گزرنے کے باوجود جموں وکشمیر کے حالات قابومیں نہیں ہیں۔ حکومت کو
مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بات چیت کا دروازہ کھلا رکھنا چاہئے اور کشمیریوں کو اعتمادمیں لیکر معاملات کو حل کرنا چاہئے۔
3) جمعیةعلماءہند کی مجلس عاملہ کا یہ اجلاس وزیر داخلہ امت شاہ جی کے این آرسی کے سلسلہ میں دیے گئے بیان پر تشویش کا اظہارکرتاہے جس میں انہوں نے غیر ملکی ہندو، بودھ، جین، سکھ اور عیسائیوں کو قانون بناکر بھارتی شہریت دینے کاوعدہ کیا ہے اور مسلمانوں کے سلسلہ میں خاموشی اختیار کرتے ہوئے دراندازوں سے ملک کو پاک کرنے کا عہد کیا ہے۔
اجلاس میں ناظم عمومی مولانا عبدالعلیم فاروقی ، مولانا سید اسجدمدنی،مولانا سید اشہد رشیدی ،مولانا مشتاق عنفر،مولانا عبداللہ ناصر، مولانا عبدالہادی پرتاپ گڑھی ، مولانامفتی غیاث الدین قاسمی ، مولانا عبدالرشید قاسمی ، مولانا فضل الرحمن قاسمی، الحاج حسن احمد قادری ،الحاج سلامت اللہ ارکان کے علاوہ مولانا حبیب اللہ قاسمی ، مولانا عبدالقیوم قاسمی، مولانا محمد مسلم قاسمی، مولانا محمد خالد قاسمی، مولانا مفتی عبدالقیوم منصوری بطور مدعو خصوصی کے طور پر اجلاس میں شریک ہوئے ۔
'کشمیر سے کنیاکماری تک خوف وہراس' - jamiat ulama meeting in delhi
جمعیة علماء ہند کی مجلس عاملہ کا ایک اہم اجلاس دہلی میں منعقد ہوا جس میں کئی قراردادیں منظور ہوئیں۔
دارلحکومت دہلی میں منگل کے روز مولانا ارشد مدنی کی سربراہی والی جمعیةعلماءہند کی مجلس عاملہ کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں بابری مسجد مقدمہ ، این آر سی، کشمیر،آسام شہریت معاملہ سے متعلق پیش رفت کا جائزہ لیا گیا اور ملک کے موجودہ حالات اور قانون وانتظام کی بدتر صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیاگیا۔
اس موقع پردیگراہم ملی،سماجی اورعالم عرب کے مسائل پر تفصیلی غوروخوض ہوا، اجلاس میں جمعیة کے ارکان نے ملک کے موجودہ حالات پر کھل کر تبادلہ خیال کیا۔
اس موقع پر صدر جمعیةعلماءہند مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ملک میں جس طرح کے حالات پیدا کردیے گئے ہیں اس سے کشمیر سے لے کرکنیاکماری تک لوگ خوف وہراس اور مایوسی میں مبتلا ہیں، ایک طرف جہاں آئین وقانون کی بالادستی کو ختم کرنے کی سازش ہورہی ہے وہیں عدل وانصاف کی روشن روایت کوبھی ختم کردینے کی خطرناک روش اختیارکی جارہی ہے۔
انہوں نے مزیدکہاکہ’ملک کی اقلیتوں کو مطمئن کرنا وزیر اعظم کی ذمہ داری ہے کیوں کہ وزیر اعظم پورے ملک کا ہوتا ہے نہ کہ کسی پارٹی کا، آج ہمارے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ملک کسی خاص مذہب کے نظریہ کی بینادپر چلے گا یا آئین و سیکولرزم کے اصولوں پر۔؟
اس اجلاس میں مندرجہ ذیل قراردادیں منظور ہوئیں۔
1) بابری مسجد تنازعہ سے متعلق اس قرارداد میں کہاگیا کہ بابری مسجد قانون اور عدل وانصاف کی نظرمیں ایک مسجد تھی اور آج بھی شرعی لحاظ سے مسجد ہے اور قیامت تک مسجد ہی رہے گی، چاہے بزورحکومت وطاقت اسے کوئی بھی شکل اور نام دے دیا جائے، اس لئے کسی فرد اور جماعت کو یہ حق نہیں ہے کہ کسی متبادل کی امید میں مسجد سے دستبردارہوجائے۔
2)جمعیةعلماءہند کی مجلس عاملہ کا یہ اجلاس کشمیر کے موجودہ حالات پر اپنی تشویش کااظہارکرتاہے، دفعہ 370کے منسوخی کے بعد سے آج تک تین ماہ سے زیادہ کا وقت گزرنے کے باوجود جموں وکشمیر کے حالات قابومیں نہیں ہیں۔ حکومت کو
مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بات چیت کا دروازہ کھلا رکھنا چاہئے اور کشمیریوں کو اعتمادمیں لیکر معاملات کو حل کرنا چاہئے۔
3) جمعیةعلماءہند کی مجلس عاملہ کا یہ اجلاس وزیر داخلہ امت شاہ جی کے این آرسی کے سلسلہ میں دیے گئے بیان پر تشویش کا اظہارکرتاہے جس میں انہوں نے غیر ملکی ہندو، بودھ، جین، سکھ اور عیسائیوں کو قانون بناکر بھارتی شہریت دینے کاوعدہ کیا ہے اور مسلمانوں کے سلسلہ میں خاموشی اختیار کرتے ہوئے دراندازوں سے ملک کو پاک کرنے کا عہد کیا ہے۔
اجلاس میں ناظم عمومی مولانا عبدالعلیم فاروقی ، مولانا سید اسجدمدنی،مولانا سید اشہد رشیدی ،مولانا مشتاق عنفر،مولانا عبداللہ ناصر، مولانا عبدالہادی پرتاپ گڑھی ، مولانامفتی غیاث الدین قاسمی ، مولانا عبدالرشید قاسمی ، مولانا فضل الرحمن قاسمی، الحاج حسن احمد قادری ،الحاج سلامت اللہ ارکان کے علاوہ مولانا حبیب اللہ قاسمی ، مولانا عبدالقیوم قاسمی، مولانا محمد مسلم قاسمی، مولانا محمد خالد قاسمی، مولانا مفتی عبدالقیوم منصوری بطور مدعو خصوصی کے طور پر اجلاس میں شریک ہوئے ۔
جمعیة علماءہندکی عاملہ میٹنگ،مودی حکومت پربڑاحملہ،ملکی وملی امورپراہم قراردادیں منظورہوئیں
نئی دہلی :مولاناسیدارشدمدنی کی سربراہی والی جمعیةعلماءہند کی مجلس عاملہ کا ایک اہم اجلاس دہلی میں منعقدہوا۔ اجلاس میں بابری مسجد مقدمہ ، این آر سی، کشمیر ،آسام شہریت معاملہ سے متعلق پیش رفت کا جائزہ لیا گیا اور ملک کے موجودہ حالات اور قانون وانتظام کی بدتر صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیاگیا ساتھ ہی دوسرے اہم ملی ،سماجی اورعالم عرب کے ایشوز پر تفصیل سے غوروخوض ہوا ،اس اہم اجلاس میںممبران نے ملک کے موجودہ حالات پر کھل کر تبادلہ خیال کیا۔اجلاس میں مولاناارشد مدنی نے کہا کہ ملک میںجس طرح کے حالات پیداکردیئے گئے ہیں اس میں کشمیر سے لے کرکنیاکماری تک لوگ خوف وہراس اور مایوسی میںمبتلاہوچکے ہیں ، ایک طرف جہاں آئین وقانون کی بالادستی کو ختم کرنے کی سازش ہورہی ہے وہیں عدل وانصاف کی روشن روایت کوبھی ختم کردینے کی خطرناک روش اختیارکی جارہی ہے ۔انہوں نے مزیدکہاکہ’ملک کی اقلیتوں کو مطمئن کرنا وزیر اعظم کی ذمہ داری ہے کیوں کہ وزیر اعظم پورے ملک کا ہوتا ہے نہ کہ کسی پارٹی کا ، آج ہمارے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ملک کسی خاص مذہب کے نظریہ کی بینادپر چلے گا یا آئین و سیکولرازم کے اصولوں پر ؟
اس اہم اجلاس میں اہم تجاویز منظورہوئیں:
1) بابری مسجد تنازعہ سے متعلق اس قرارداد میں کہاگیا کہبابری مسجد قانون اور عدل وانصاف کی نظرمیں ایک مسجد تھی اور آج بھی شرعی لحاظ سے مسجد ہے اور قیامت تک مسجد ہی رہے گی ، چاہئے بزورحکومت وطاقت اسے کوئی بھی شکل اور نام دیدیا جائے ، اس لئے کسی فرد اور جماعت کو یہ حق نہیںہے کہ کسی متبادل کی امید میں مسجد سے دستبردارہوجائے۔ 2)جمعیةعلماءہند کی مجلس عاملہ کا یہ اجلاس کشمیر کے موجودہ حالات پر اپنی تشویش کااظہارکرتاہے ، دفعہ 370کے منسوخی کے بعد سے آج تک ڈھائی ماہ گزرنے کے باوجود جموں وکشمیر کے حالات قابومیں نہیں ہیں۔ حکومت کو
مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بات چیت کا روازہ کھلا رکھنا چاہئے اور کشمیریوں کو اعتمادمیں لیکر معاملات کو حل کرنا چاہئے ۔
3) جمعیةعلماءہند کی مجلس عاملہ کا یہ اجلاس وزیر داخلہ امت شاہ جی کے این آرسی کے سلسلہ میں دیئے گئے بیان پر تشویش کا اظہارکرتاہے جس میں انہوں نے غیر ملکی ہندوو¿ں ، بودھشٹوں ، جینیوں ، سکھوں اور کرسچنوں کو قانون بناکر ہندوستانی نیشنلٹی دینے کاوعدہ کیا ہے اور مسلمانوں کے سلسلہ میں خاموشی اختیارکرتے ہوئے دراندازوں سے ملک کو پاک کرنے کا عہد کیا ہے۔اجلاس میں ناظم عمومی مولانا عبدالعلیم فاروقی ، مولانا سید اسجدمدنی،مولانا سید اشہد رشیدی ،مولانا مشتاق عنفر،مولانا عبداللہ ناصر، مولانا عبدالہادی پرتاپ گڑھی ، مولانامفتی غیاث الدین قاسمی ، مولانا عبدالرشید قاسمی ، مولانا فضل الرحمن قاسمی، الحاج حسن احمد قادری ،الحاج سلامت اللہ ارکان کے علاوہ مولانا حبیب اللہ قاسمی ، مولانا عبدالقیوم قاسمی، مولانا محمد مسلم قاسمی، مولانا محمد خالد قاسمی، مولانا مفتی عبدالقیوم منصوری وغیرہ
بطورمدعوخصوصی شریک ہوئے ۔
فائل فوٹولگائیں
Body:@Conclusion: