ETV Bharat / bharat

'کیا اپنی رائے رکھنا ملک سے غداری کے برابر ہے؟' - اے ایم یو کے ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ

ریاست اترپردیش کے علی گڑھ میں واقع مشہور و معروف علمی و تحقیقی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی پروفیسر پر کشمیر کے سلسلے میں پوسٹ کرنے پر مقدمہ درج کیا گیا۔

ریاست اترپردیش کے علی گڑھ میں واقع مشہور و معروف علمی و تحقیقی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
author img

By

Published : Nov 21, 2019, 8:42 AM IST

علی گڑھ ضلعی پولیس نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کے خلاف سوشل میڈیا پرپوسٹ شیئر کرنے پر ایف آئی آر درج کی ہے۔

اطلاعات کے مطابق ایف آئی آر میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ایک اسسٹنٹ پروفیسر کے خلاف 'نامناسب پوسٹ' کا حوالہ دیا گیا۔ جس میں جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت دفعہ 370 کو منسوخ کرنے سے متعلق بات کہی گئی۔

بتایا جارہا ہے کہ متعلقہ اسسٹنٹ پروفیسر کے شوہر کشمیر میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

اسسٹنٹ پروفیسر کے پوسٹ کا متن یہ ہے: 'سچ میں سانپک توت جانا ( تعلق اور رشتہ ٹوٹ جانا) کتنا خطرناک اور دوکھد ہوتا ہے، چاہے چندرائن ہو یا کشمیر '۔

بتادیں کہ ستمبر میں اسرو مشن چندرائن 2 کا چاند کی سطح پر گرنے کے بعد لینڈر وکرم سے رابطہ ٹوٹ گیا تھا۔

ہندو مہاسبھا کے رہنما اشوک پانڈے نے 14 نومبر کو ہفتوں پرانی پوسٹوں پر شکایت درج کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ 'اس تبصرے سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ 'کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ حصہ نہیں سمجھتی ہیں'۔

اے ایم یو کے ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کی 34 سالہ ہما پروین پر مختلف طبقوں کے مابین 'دشمنی کو فروغ دینے' کے تعزیرات ہند کی دفعہ 153-اے اور (2) 505 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں : اے ایم یو کو ایک اور بڑی کامیابی، اسرو کا موسم غبارہ لگانے کا فیصلہ

گاندھی پارک پولیس اسٹیشن میں درج شکایت میں الزام لگایا گیا ہے کہ ان کی پوسٹیں ' قوم کی سالمیت کے لیے خطرہ ہے اور اس کا مقصد کشمیر میں سیکیورٹی فورسز کے حوصلے کو نقصان پہنچانا ہے'۔

اسسٹنٹ پروفیسر نے کہا کہ 'وہ ملک کی وفادار شہری ہیں اور انہوں نے کہا کہ ان کی پوسٹ سے دور دور تک یہ مطلب نہیں نکالا جا سکتا کہ وہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں سمجھتی ہیں'۔

علی گڑھ ضلعی پولیس نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کے خلاف سوشل میڈیا پرپوسٹ شیئر کرنے پر ایف آئی آر درج کی ہے۔

اطلاعات کے مطابق ایف آئی آر میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ایک اسسٹنٹ پروفیسر کے خلاف 'نامناسب پوسٹ' کا حوالہ دیا گیا۔ جس میں جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت دفعہ 370 کو منسوخ کرنے سے متعلق بات کہی گئی۔

بتایا جارہا ہے کہ متعلقہ اسسٹنٹ پروفیسر کے شوہر کشمیر میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

اسسٹنٹ پروفیسر کے پوسٹ کا متن یہ ہے: 'سچ میں سانپک توت جانا ( تعلق اور رشتہ ٹوٹ جانا) کتنا خطرناک اور دوکھد ہوتا ہے، چاہے چندرائن ہو یا کشمیر '۔

بتادیں کہ ستمبر میں اسرو مشن چندرائن 2 کا چاند کی سطح پر گرنے کے بعد لینڈر وکرم سے رابطہ ٹوٹ گیا تھا۔

ہندو مہاسبھا کے رہنما اشوک پانڈے نے 14 نومبر کو ہفتوں پرانی پوسٹوں پر شکایت درج کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ 'اس تبصرے سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ 'کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ حصہ نہیں سمجھتی ہیں'۔

اے ایم یو کے ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کی 34 سالہ ہما پروین پر مختلف طبقوں کے مابین 'دشمنی کو فروغ دینے' کے تعزیرات ہند کی دفعہ 153-اے اور (2) 505 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں : اے ایم یو کو ایک اور بڑی کامیابی، اسرو کا موسم غبارہ لگانے کا فیصلہ

گاندھی پارک پولیس اسٹیشن میں درج شکایت میں الزام لگایا گیا ہے کہ ان کی پوسٹیں ' قوم کی سالمیت کے لیے خطرہ ہے اور اس کا مقصد کشمیر میں سیکیورٹی فورسز کے حوصلے کو نقصان پہنچانا ہے'۔

اسسٹنٹ پروفیسر نے کہا کہ 'وہ ملک کی وفادار شہری ہیں اور انہوں نے کہا کہ ان کی پوسٹ سے دور دور تک یہ مطلب نہیں نکالا جا سکتا کہ وہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں سمجھتی ہیں'۔

Intro:Body:Conclusion:

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.