ETV Bharat / bharat

کیا محض مذہبی عقیدہ ہی گنگا کو صاف کرنے کے لئے کافی ہے؟

نیشنل سیڈ ایسوسی ایشن آف انڈیا کے ڈائریکٹر اندرا شیکھر سنگھ نے انسانوں کے ذریعہ کی جانے والی پانی کی آلودگی خاص کر گنگا جیسے مقدس ندی کو آلودہ کرنے سے متعلق کہا کہ ہمیں 'گنگا ستیہ گرہ 'کی ضرورت ہے تاکہ اس ضمن میں ہمارے سماج میں ذمہ داریوں کا احساس اُجاگر ہو

author img

By

Published : Feb 26, 2020, 6:06 PM IST

Updated : Mar 2, 2020, 4:00 PM IST

کیا محض مذہبی عقیدہ ہی گنگا کو صاف کرنے کے لئے کافی ہے؟
کیا محض مذہبی عقیدہ ہی گنگا کو صاف کرنے کے لئے کافی ہے؟

ہندو دھرم کی ایک مقدس کتاب 'تیت تریاسمہتا' میں پانی کو ماں کی طرح کا درجہ دیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ ایک ماں کی طرح پرورش کرتا ہے۔ ماحولیاتی تباہی ایک وبا کی مانندبھارتی سماج کا حصہ بن چکی ہے۔ یہ تباہی جس قدر خطرناک ہے، اس سے کہیں زیادہ اس کے تئیں لوگوں کی بے حِسی خطرناک ہے۔

ماحولیاتی تشدد اور بے حسی دونوں ایسی چیزیں ہیں جو کسی بھی قوم کر تباہ و برباد کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ہم نے اپنے پہاڑ اور سر سبز جنگلات کاٹ دیئے ہیں۔نتیجے کے طور پر بھارت ماحولیاتی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اس کا خمیازہ یہ ہے کہ آلودہ پانی کے استعمال سے سالانہ سات لاکھ لوگوں کی قبل از وقت موت واقع ہوجاتی ہے اور لاکھوں لوگ جسمانی اور ذہنی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔

ہمارے آبی ذخائر سکڑتے جارہے ہیں اور زیر زمین پانی کا حجم کم ہوتا جارہا ہے ۔ اس کے نتیجے میں آنے والی دہائی میں پانی کے حصول کے لئے جنگوں کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔مغرور اور نوجوان بھارتی ٹھیکیدار ہمارے دریاؤں کو لوٹ رہے ہیں۔ان کے اندر موجود ریت، بجری، پتھر وغیرہ لوٹ لئے جارہے ہیں۔ جبکہ بڑے بوڑھے اس ضمن میں وعظ و تبلیغ کرتے ہیں، لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ ماحولیات کے تئیں ہماری بے حسی کو خود ان ہی لوگوں نے پروان چڑھانے میں ایک کردار ادا کیا ہے۔

ماحولیاتی آلودگی کا ذمہ دار حکومت کو قرار نہیں دیا جاسکتا ہے کیونکہ اس کے ذمہ دار لوگ ہیں۔یہ لوگوں کے کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔ ماحولیات کی یہ بربادی لوگوں کی لالچ ، سنگدلی اور اخلاقی خرابی کا نتیجہ ہے۔

ہمارے لوگوں نے ماحولیاتی تشددکا مظاہرہ کرتے ہوائے اور ماحولیات کے تئیں بے حِس ہوکر گنگا کو آلودہ کیا ہے۔ حالانکہ اس گنگا کو ایک زندہ و جاوید دیوی سمجھ کر پوجا جاتا ہے۔ آج گنگا کے اندر شفاف پانی ، زرخیز مٹی اور معدنیات نہیں ہیں، بلکہ یہ زہریلے کوڑے کرکٹ سے بھری پڑی ہے۔

یہ دریا آج اربوں لیٹر فضلے اور گندے نالوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ اس میں بھاری بھرکم دھات کے ٹکڑے اور امراض پھیلانے والی اشیاء موجود ہیں۔گنگا دُنیا کا چوتھا گندا دریا ہے۔اس میں موجود زہریلا مواد نہ صرف انسانوں کے مضر رساں ہے بلکہ یہ اس میں رہنے والی مچھلیوں اور پودوں کے لئے بھی قاتل ثابت ہورہا ہے۔

نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں ہماری اپنی ہی حکومت کے تخمینے کا حوالہ دیکر بتایا گیا ہے کہ ہماری گنگا ماں ایک گندے نالے سے بس ذرا سی کم آلودہ ہے۔

گنگا یاترا اور جانکاری مہم چلائے جانے جیسے اقدامات اس مسئلے کے حل کی سمت میں ایک پہلا قدم ہوسکتا ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ مسئلے کو حل کرنے کے لئے بہت کچھ کرنا پڑے گا۔

گنگا کو بچانے کے لئے پہلے ہی ہزاروں کروڑ روپے خرچ کئے جاچکے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ الہ آباد کے اس دریا کا پانی، جو اب بہت کم مقدار میں رہ گیا ہے، وہ اب ناقابل استعمال ہے۔ مجھے یاد آرہا ہے کہ سنہ 2019 کے کمبھ میلا ہندئوں کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے، اس میلے کے اختتام پر پورے شہر کی گندگی اور غلاظت دریا کے کناروں کے گرد نواح میں پھیلی ہوئی تھی۔

یہاں پر زائرین کے اعتقاد کو ٹھیس پہنچانے کا مقصد نہیں ہے لیکن یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا یہ ایک اچھا اعتقاد قرار دیا جاسکتا ہے، جس کی وجہ سے ہماری گنگا ماں آلودہ ہورہی ہے؟گو کہ اس سوال کا جواب دینا مشکل ہے لیکن اس ضمن میں حقیقت عیاں ہے۔ ایک گمراہ کن اعتقاد یا اعتقاد کے نام پر زبانی جمع خرچ نے محض چند دہائیوں کے اندر اندر ہی دُنیا کے اس سے سب بڑے بڑے دریا کوتباہ کردیا ہے۔

یہ سچ ہے کہ گنگا میں ایک بار نہانا گناہوں سے چھٹکارا پانے کا ایک آسان طریقہ ہے۔ لیکن کیا ہمیں اپنے گناہوں کو دھونے کے ساتھ ساتھ گنگا کو پاک رکھنے کی فکر نہیں کرنی چاہیے۔ دریا کو پاک رکھا ہی اصل میں ہندو دھرم کا درس ہے۔

اس مسئلے کا حل بہت مشکل ہے اور یہ بہت قربانیوں کا متقاضی بھی ہے۔ اچھے اعتقاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیں سب سے پہلے اس دریا میں خاص طور سے اترا کھنڈ میں اس دریا کے بالائی حصے میں مقدس ڈبکیاں لگانے کے عمل کو اعتدال میں لانا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں گنگا میں جانے والے گندے نالوں کا بہاؤ روک دینا ہوگا۔ کیونکہ یہ گندہ نالے گنگا کی مجموعی آلودگی کا آٹھ فیصد حصہ فراہم کرتے ہیں۔

گنگا کے تحفظ کے لئے ایک نیشنل پلان مرتب کرنا ہوگا اور اس کے تحت سب سے پہلے گندے پانی کی نکاسی کے انتظام کو موثر بنانا ہوگا۔تاکہ یہ براہ راست دریا میں نہ چلا جائے ۔ ہمیں گنگا کے ماخذ کو پاک کرنا ہوگا۔ جب تک ہم ایک موثر سویج منیجمنٹ سسٹم قائم نہیں کرتے ہیں، تب تک گنگا کا صاف و پاک ہو جانا محال ہے۔

اس کے علاوہ ایک متحرک ادارہ قائم کرنے کی ضرورت ہے، جو اس دریا اور اس کے معاون دریاؤں کے پانی کے معیار کا تسلسل کے ساتھ جائزہ لیتا رہے گا۔ ہمیں گنگا کے گرد نواح یعنی اسکے طاس کا دائرہ مقرر کرنا ہوگا۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ گنگا میں جانے والے دیگر دریاؤں اور نالوں کو قومی خزانہ قرار دیا جانا چاہیے۔ان میں سے ریت اور بجری نکالنا اور ان میں گندگی پھینکنا اور سنگین جرم قرارجرم قراردینا ہوگا۔ اس ضمن میں دیہی پولیس کو تعینات کیا جانا چاہیے کیونکہ مستقبل قریب میں پانی سونے سے بھی زیادہ قیمتی ہوگا۔

گنگا کو بڑے پیمانے پر آلودگی کرنے والی صنعتوں کے خلاف سخت قوانین لاگو کئے جانے چاہیے اور 'نیا کلین گنگا ٹیکس' لاگو کیا جانا چاہیے۔ اس ضمن میں ہماری حکومت ناروے اور سویڈن کے طرز پر قوانین و ضوابط کو لاگو کرسکتی ہے، جو ان ممالک میں دریاؤں کی حفاظت کے لئے نافذ ہیں۔اُن تمام صنعت پر لازم ہونا چاہیے کہ وہ پاس میں ہی ایک ٹریٹمنٹ پلانٹ قائم کریں، جو گنگا کو گندا کرتی ہیں، تاکہ آلودہ پانی کو صاف کرنے کے بعد ہی گنگا میں ڈال دیا جائے ۔

گنگا کے پانی کے معیار جانچنے کے لئے سٹیٹ پولیوشن بورڈ کی رپورٹ کا کسی تیسرے فریق سے تصدیق کرانا لازمی ہونا چاہیے تاکہ اس معاملے میں کسی کوتاہی کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ اسی طرح گنگا کو آلودہ کرنے والے بڑے شہروں سے حاصل ہونے والے کارپوریٹ سوشل ریسپانسبلٹی ( سی ایس آر ) فنڈنگ کو گنگا کی بحالی کے کام میں لگا دیا جانا چاہیے۔

ماحولیات دوست صنعتوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے اور ان کی خدمات کی قدر کی جانی چاہیے ۔ مثال کے طور پر اگر چمڑے کے کارخانے از خود ایک ٹریٹمنٹ پلانٹ نصب نہ کر پائیں تو ان پر لازم ہونا چاہیے کہ وہ ان ماحولیات دوست صنعتوں کے تعاون سے ایسا کریں ۔ دریا کے گرد نواح میں گرین انڈسٹری زون بنائے جانے چاہیں۔تاکہ پانی کو صاف کیا جاسکے اور گرد نواح میں سبزہ زار قائم کئے جائیں۔

رضاکار تنظیموں اور گنگا کے آس پاس کے کسانوں کو آرگینک فارمنگ کی طرف راغب کیا جانا چاہیے۔ بلکہ ریاستی حکومتوں کو اس کام کے لئے مراعات فراہم کرنے چاہیں۔ گنگا آرگانک گاہکوں کے لئے ایک بڑے برانڈ کے بطورمتعارف کیا جاسکتا ہے۔ بہار حکومت نے 'جیوک سیتو 'نام سے اسی طرز کا ایک پروگرام شروع کررکھا ہے۔اسے گنگا کے حدود تک فروغ دیا جانا چاہیے۔

گنگا، جمنا یا کسی اور دریا سے متعلق اس طرح کا بحران دراصل ہمارے اعتقاد کے بحران کی عکاسی کرتا ہے۔ ہم نے ایک سماج کی حیثیت سے اپنی تہذیب کو تباہ کردیا ہے اور اب ہم اس کا ثمر بیماریوں اور آلودگی کی شکل میں حاصل کررہے ہیں۔ ایک دریا کا اس طرح تباہ ہوجانا مردہ ایمان کی علامت ہے اور یہ ہندو دھرم کے تقاضوں سے متصادم بات ہے۔

ہماری لالچ اور ہمار ا مذہب ایک ساتھ نہیں رہ سکتے ہیں۔یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ یا تو ہمارے دریا تقدس کے ساتھ صاف و پاک رہ سکیں گے یا پھر ہماری لالچ اور ماحولیاتی تباہی رہ سکتی ہے۔ صرف پیشہ اور حکومت گنگا کو صاف کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔ بلکہ اس کے لئے بہت قربانیاں دینی ہونگیں ۔

ہمارے درست اعتقاد کے نتیجے میں یہ دریا صاف ہوسکتا ہے۔ ہمیں 'گنگا ستیہ گرہ 'کی ضرورت ہے تاکہ اس ضمن میں ہمارے سماج میں ذمہ داریوں کا احساس اُجاگر ہو۔ ہماری دریا ماںز ہر آلود ہوچکی ہے اور یہ سب کچھ ہمارا کیا کرایا ہے۔ اب یہی وقت ہے کہ بھارت کے عوام اور دریاؤں سے منسوب ہماری تہذیب کے بچے اپنی اس ماں کی محبت اور اس کے تقدس کے بازیابی کے لئے اُٹھ کھڑے ہوجائیں ۔

ہندو دھرم سے منسوب تصنیف 'گنگا پران' میں لکھا ہے کہ انسان کے ہزاروں گناہ گنگا کی ایک جھلک دیکھنے سے دُھل جاتے ہیں اور انسان اس کے پانی کو چھونے سے پاک ہوجاتے ہیں۔یہاں تک کہ اسے پینے یا محض گنگا کا نام لینے سے انسان پاک ہوجاتے ہیں یہ تھی ہماری گنگا ماں کا تقدس اور پاکیزگی ۔ یہی وقت ہے کہ ہم خودکو اور اپنے سماج کو لالچ ، خود غرضی اور ماحولیاتی تشدد سے پاک کریں اور اچھے اعتقاد کے ساتھ گنگا کو پھر اپنی مقدس ماں کا درجہ دیں۔

اندرا شیکھر سنگھ ۔ڈائریکٹر پالیسی اینڈ آئوٹ ریچ، نیشنل سیڈ ایسوسی ایشن آف انڈیا

ہندو دھرم کی ایک مقدس کتاب 'تیت تریاسمہتا' میں پانی کو ماں کی طرح کا درجہ دیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ ایک ماں کی طرح پرورش کرتا ہے۔ ماحولیاتی تباہی ایک وبا کی مانندبھارتی سماج کا حصہ بن چکی ہے۔ یہ تباہی جس قدر خطرناک ہے، اس سے کہیں زیادہ اس کے تئیں لوگوں کی بے حِسی خطرناک ہے۔

ماحولیاتی تشدد اور بے حسی دونوں ایسی چیزیں ہیں جو کسی بھی قوم کر تباہ و برباد کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ہم نے اپنے پہاڑ اور سر سبز جنگلات کاٹ دیئے ہیں۔نتیجے کے طور پر بھارت ماحولیاتی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اس کا خمیازہ یہ ہے کہ آلودہ پانی کے استعمال سے سالانہ سات لاکھ لوگوں کی قبل از وقت موت واقع ہوجاتی ہے اور لاکھوں لوگ جسمانی اور ذہنی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔

ہمارے آبی ذخائر سکڑتے جارہے ہیں اور زیر زمین پانی کا حجم کم ہوتا جارہا ہے ۔ اس کے نتیجے میں آنے والی دہائی میں پانی کے حصول کے لئے جنگوں کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔مغرور اور نوجوان بھارتی ٹھیکیدار ہمارے دریاؤں کو لوٹ رہے ہیں۔ان کے اندر موجود ریت، بجری، پتھر وغیرہ لوٹ لئے جارہے ہیں۔ جبکہ بڑے بوڑھے اس ضمن میں وعظ و تبلیغ کرتے ہیں، لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ ماحولیات کے تئیں ہماری بے حسی کو خود ان ہی لوگوں نے پروان چڑھانے میں ایک کردار ادا کیا ہے۔

ماحولیاتی آلودگی کا ذمہ دار حکومت کو قرار نہیں دیا جاسکتا ہے کیونکہ اس کے ذمہ دار لوگ ہیں۔یہ لوگوں کے کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔ ماحولیات کی یہ بربادی لوگوں کی لالچ ، سنگدلی اور اخلاقی خرابی کا نتیجہ ہے۔

ہمارے لوگوں نے ماحولیاتی تشددکا مظاہرہ کرتے ہوائے اور ماحولیات کے تئیں بے حِس ہوکر گنگا کو آلودہ کیا ہے۔ حالانکہ اس گنگا کو ایک زندہ و جاوید دیوی سمجھ کر پوجا جاتا ہے۔ آج گنگا کے اندر شفاف پانی ، زرخیز مٹی اور معدنیات نہیں ہیں، بلکہ یہ زہریلے کوڑے کرکٹ سے بھری پڑی ہے۔

یہ دریا آج اربوں لیٹر فضلے اور گندے نالوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ اس میں بھاری بھرکم دھات کے ٹکڑے اور امراض پھیلانے والی اشیاء موجود ہیں۔گنگا دُنیا کا چوتھا گندا دریا ہے۔اس میں موجود زہریلا مواد نہ صرف انسانوں کے مضر رساں ہے بلکہ یہ اس میں رہنے والی مچھلیوں اور پودوں کے لئے بھی قاتل ثابت ہورہا ہے۔

نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں ہماری اپنی ہی حکومت کے تخمینے کا حوالہ دیکر بتایا گیا ہے کہ ہماری گنگا ماں ایک گندے نالے سے بس ذرا سی کم آلودہ ہے۔

گنگا یاترا اور جانکاری مہم چلائے جانے جیسے اقدامات اس مسئلے کے حل کی سمت میں ایک پہلا قدم ہوسکتا ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ مسئلے کو حل کرنے کے لئے بہت کچھ کرنا پڑے گا۔

گنگا کو بچانے کے لئے پہلے ہی ہزاروں کروڑ روپے خرچ کئے جاچکے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ الہ آباد کے اس دریا کا پانی، جو اب بہت کم مقدار میں رہ گیا ہے، وہ اب ناقابل استعمال ہے۔ مجھے یاد آرہا ہے کہ سنہ 2019 کے کمبھ میلا ہندئوں کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے، اس میلے کے اختتام پر پورے شہر کی گندگی اور غلاظت دریا کے کناروں کے گرد نواح میں پھیلی ہوئی تھی۔

یہاں پر زائرین کے اعتقاد کو ٹھیس پہنچانے کا مقصد نہیں ہے لیکن یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا یہ ایک اچھا اعتقاد قرار دیا جاسکتا ہے، جس کی وجہ سے ہماری گنگا ماں آلودہ ہورہی ہے؟گو کہ اس سوال کا جواب دینا مشکل ہے لیکن اس ضمن میں حقیقت عیاں ہے۔ ایک گمراہ کن اعتقاد یا اعتقاد کے نام پر زبانی جمع خرچ نے محض چند دہائیوں کے اندر اندر ہی دُنیا کے اس سے سب بڑے بڑے دریا کوتباہ کردیا ہے۔

یہ سچ ہے کہ گنگا میں ایک بار نہانا گناہوں سے چھٹکارا پانے کا ایک آسان طریقہ ہے۔ لیکن کیا ہمیں اپنے گناہوں کو دھونے کے ساتھ ساتھ گنگا کو پاک رکھنے کی فکر نہیں کرنی چاہیے۔ دریا کو پاک رکھا ہی اصل میں ہندو دھرم کا درس ہے۔

اس مسئلے کا حل بہت مشکل ہے اور یہ بہت قربانیوں کا متقاضی بھی ہے۔ اچھے اعتقاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیں سب سے پہلے اس دریا میں خاص طور سے اترا کھنڈ میں اس دریا کے بالائی حصے میں مقدس ڈبکیاں لگانے کے عمل کو اعتدال میں لانا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں گنگا میں جانے والے گندے نالوں کا بہاؤ روک دینا ہوگا۔ کیونکہ یہ گندہ نالے گنگا کی مجموعی آلودگی کا آٹھ فیصد حصہ فراہم کرتے ہیں۔

گنگا کے تحفظ کے لئے ایک نیشنل پلان مرتب کرنا ہوگا اور اس کے تحت سب سے پہلے گندے پانی کی نکاسی کے انتظام کو موثر بنانا ہوگا۔تاکہ یہ براہ راست دریا میں نہ چلا جائے ۔ ہمیں گنگا کے ماخذ کو پاک کرنا ہوگا۔ جب تک ہم ایک موثر سویج منیجمنٹ سسٹم قائم نہیں کرتے ہیں، تب تک گنگا کا صاف و پاک ہو جانا محال ہے۔

اس کے علاوہ ایک متحرک ادارہ قائم کرنے کی ضرورت ہے، جو اس دریا اور اس کے معاون دریاؤں کے پانی کے معیار کا تسلسل کے ساتھ جائزہ لیتا رہے گا۔ ہمیں گنگا کے گرد نواح یعنی اسکے طاس کا دائرہ مقرر کرنا ہوگا۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ گنگا میں جانے والے دیگر دریاؤں اور نالوں کو قومی خزانہ قرار دیا جانا چاہیے۔ان میں سے ریت اور بجری نکالنا اور ان میں گندگی پھینکنا اور سنگین جرم قرارجرم قراردینا ہوگا۔ اس ضمن میں دیہی پولیس کو تعینات کیا جانا چاہیے کیونکہ مستقبل قریب میں پانی سونے سے بھی زیادہ قیمتی ہوگا۔

گنگا کو بڑے پیمانے پر آلودگی کرنے والی صنعتوں کے خلاف سخت قوانین لاگو کئے جانے چاہیے اور 'نیا کلین گنگا ٹیکس' لاگو کیا جانا چاہیے۔ اس ضمن میں ہماری حکومت ناروے اور سویڈن کے طرز پر قوانین و ضوابط کو لاگو کرسکتی ہے، جو ان ممالک میں دریاؤں کی حفاظت کے لئے نافذ ہیں۔اُن تمام صنعت پر لازم ہونا چاہیے کہ وہ پاس میں ہی ایک ٹریٹمنٹ پلانٹ قائم کریں، جو گنگا کو گندا کرتی ہیں، تاکہ آلودہ پانی کو صاف کرنے کے بعد ہی گنگا میں ڈال دیا جائے ۔

گنگا کے پانی کے معیار جانچنے کے لئے سٹیٹ پولیوشن بورڈ کی رپورٹ کا کسی تیسرے فریق سے تصدیق کرانا لازمی ہونا چاہیے تاکہ اس معاملے میں کسی کوتاہی کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ اسی طرح گنگا کو آلودہ کرنے والے بڑے شہروں سے حاصل ہونے والے کارپوریٹ سوشل ریسپانسبلٹی ( سی ایس آر ) فنڈنگ کو گنگا کی بحالی کے کام میں لگا دیا جانا چاہیے۔

ماحولیات دوست صنعتوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے اور ان کی خدمات کی قدر کی جانی چاہیے ۔ مثال کے طور پر اگر چمڑے کے کارخانے از خود ایک ٹریٹمنٹ پلانٹ نصب نہ کر پائیں تو ان پر لازم ہونا چاہیے کہ وہ ان ماحولیات دوست صنعتوں کے تعاون سے ایسا کریں ۔ دریا کے گرد نواح میں گرین انڈسٹری زون بنائے جانے چاہیں۔تاکہ پانی کو صاف کیا جاسکے اور گرد نواح میں سبزہ زار قائم کئے جائیں۔

رضاکار تنظیموں اور گنگا کے آس پاس کے کسانوں کو آرگینک فارمنگ کی طرف راغب کیا جانا چاہیے۔ بلکہ ریاستی حکومتوں کو اس کام کے لئے مراعات فراہم کرنے چاہیں۔ گنگا آرگانک گاہکوں کے لئے ایک بڑے برانڈ کے بطورمتعارف کیا جاسکتا ہے۔ بہار حکومت نے 'جیوک سیتو 'نام سے اسی طرز کا ایک پروگرام شروع کررکھا ہے۔اسے گنگا کے حدود تک فروغ دیا جانا چاہیے۔

گنگا، جمنا یا کسی اور دریا سے متعلق اس طرح کا بحران دراصل ہمارے اعتقاد کے بحران کی عکاسی کرتا ہے۔ ہم نے ایک سماج کی حیثیت سے اپنی تہذیب کو تباہ کردیا ہے اور اب ہم اس کا ثمر بیماریوں اور آلودگی کی شکل میں حاصل کررہے ہیں۔ ایک دریا کا اس طرح تباہ ہوجانا مردہ ایمان کی علامت ہے اور یہ ہندو دھرم کے تقاضوں سے متصادم بات ہے۔

ہماری لالچ اور ہمار ا مذہب ایک ساتھ نہیں رہ سکتے ہیں۔یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ یا تو ہمارے دریا تقدس کے ساتھ صاف و پاک رہ سکیں گے یا پھر ہماری لالچ اور ماحولیاتی تباہی رہ سکتی ہے۔ صرف پیشہ اور حکومت گنگا کو صاف کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔ بلکہ اس کے لئے بہت قربانیاں دینی ہونگیں ۔

ہمارے درست اعتقاد کے نتیجے میں یہ دریا صاف ہوسکتا ہے۔ ہمیں 'گنگا ستیہ گرہ 'کی ضرورت ہے تاکہ اس ضمن میں ہمارے سماج میں ذمہ داریوں کا احساس اُجاگر ہو۔ ہماری دریا ماںز ہر آلود ہوچکی ہے اور یہ سب کچھ ہمارا کیا کرایا ہے۔ اب یہی وقت ہے کہ بھارت کے عوام اور دریاؤں سے منسوب ہماری تہذیب کے بچے اپنی اس ماں کی محبت اور اس کے تقدس کے بازیابی کے لئے اُٹھ کھڑے ہوجائیں ۔

ہندو دھرم سے منسوب تصنیف 'گنگا پران' میں لکھا ہے کہ انسان کے ہزاروں گناہ گنگا کی ایک جھلک دیکھنے سے دُھل جاتے ہیں اور انسان اس کے پانی کو چھونے سے پاک ہوجاتے ہیں۔یہاں تک کہ اسے پینے یا محض گنگا کا نام لینے سے انسان پاک ہوجاتے ہیں یہ تھی ہماری گنگا ماں کا تقدس اور پاکیزگی ۔ یہی وقت ہے کہ ہم خودکو اور اپنے سماج کو لالچ ، خود غرضی اور ماحولیاتی تشدد سے پاک کریں اور اچھے اعتقاد کے ساتھ گنگا کو پھر اپنی مقدس ماں کا درجہ دیں۔

اندرا شیکھر سنگھ ۔ڈائریکٹر پالیسی اینڈ آئوٹ ریچ، نیشنل سیڈ ایسوسی ایشن آف انڈیا

Last Updated : Mar 2, 2020, 4:00 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.