عالمی بینک نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ماحولیاتی تباہی کے نتیجے میں 23فیصد نو زائید بچہ کی اموات واقع ہوتی ہیں۔ اس انکشاف کی وجہ سے سماج کے مختلف طبقات کو ایک دھچکہ لگا ہے۔ جبکہ اس بات سے بھی حساس طبقوں کو صدمہ پہنچا ہے کہ دُنیا میں کوئی بھی ملک بچوں کی صحت، ماحولیات اور مستقبل بچانے کے لئے مناسب اقدامات نہیں کر پارہا ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن، یونیسیف اور دی لینسیٹ جیسے اداروں کی ایک جامع تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دیگر ممالک کے مقابلے میں ناروے ، جنوبی کوریا ، نیدرلینڈ اور فرانس جیسے ممالک میں نوازئیدگان کے فلاح و بہبود کی صورتحال بہتر ہے۔ جبکہ اس معاملے میں سینٹرل افریقہ، سومالیہ اور چاد جیسے ممالک کی صورتحال بدترین ہے۔
180ممالک میں کئے گئے سروے میں بھارت کو اُن ممالک کی فہرست میں 131ویں نمبر پر رکھا گیا ہے، جہاں بچوں کے تحفظ اور اُن کی بہبود کے بہتر امکانات موجود ہیں۔
اس تحقیق میں اُن ممالک کا جائزہ بھی لیا گیا ہے، جنہوں نے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے سنہ 2030 تک کاربن گیس کا اخراج کم کرنے کا عزم لیا ہے۔البانیہ، ارمینیہ، گرینا ڈا، جارڈن ، مالدووا، سری لنکا، تیونس، اروگوے اور ویتنام کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے کہ جن میں اس ہدف کو پورا کرنے کے امکانات نظر آرہے ہیں۔جبکہ بھارت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اسے اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے ابھی کافی منصوبہ بندی کرنی ہوگی ۔
ماحولیات سے متعلق موجودہ صورتحال کو بہتر بنانے کا واحد طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ آئندہ دس برسوں میں کاربن گیس کے اخراج کو موجودہ 39.7گیگاٹن سے کم کرکے 22.8گیگا ٹن تک لانا ہوگا۔ اس ضمن میں دنیا کے تمام ممالک کو جنگلات کا کٹائوکم کرنے، جیواشم ایندھن کم کرنے، خوراک ضائع ہوجانے سے بچانے اور آبادی کے پھیلاؤ کو قابو میں رکھنے جیسے اقدامات کے لئے کثیر جہتی حکمت عملی مرتب کرنی ہوگی۔
اقوام متحدہ نے تین دہائیاں قبل آنے والی نسلوں کو تحفظ فراہم کرنے اور ان کی باعزت زندگی یقینی بنانے کا عزم کیا ہے۔ اس عزم کے نتائج جاننے کے لئے ہمیں مختلف ممالک کی صورتحال کا گہرائی سے جائزہ لینا ہوگا۔
ماضی میں سالانہ 44 لاکھ نو زائیدگان کی اموات ہوجاتی تھیں۔ 9.5کروڑ بچوں کوبچہ مزدوری پر لگایا جاتا تھا اور 11.5کروڑ بچے تعلیم کے حق سے محروم رہتے تھے ۔ تاہم موجودہ صورتحال اس کے مقابلے میں بہتر ہے۔ لیکن موسمیاتی تغیر اور کمرشلائیزیشن دو ایسی وجو ہات ہیں، جن کی وجہ سے آج کے نو زائیدگان کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔
درجہ حرارت میں اضافے کے نتیجے میں اناج کی پیداوار اور اسکی کاشت میں کمی واقعہ ہوگئی ہے اور اس کے سبب غذائیت کی کمی کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ ڈینگو، ملیریا اور کالرا جیسی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ فاسٹ فوڈ، سافٹ ڈرنکس، تمباکو اور شراب جیسی اشیاء کی پھلتی پھولتی تجارت بچوں کی نسل پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
سنہ 1975 میں موٹاپے کا شکار بچوں اور نوعمروں کی تعداد 1.10کروڑ تھی جبکہ یہ تعدادسال 2016 تک بڑھ کر 14.40کروڑ تک پہنچ گئی ۔ آج موٹاپے کا مسئلہ امیر اور غریب ممالک میں یکساں طور پر دیکھنے کو ملتا ہے۔سات فیصد سے زائد بچے گردے کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ 19سال سے کم عمر کے دس فیصد بچے ذیابطس کے مرض میں مبتلا ہیں۔
یہ تمام اعداد و شمارناقص معیارِ زندگی اور موسمیاتی تغیر کے سبب عوام کی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کو ظاہر کرتے ہیں۔لوگوں میں موٹاپے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ بھارت واحد ملک ہے، جہاں موٹاپا اور غذائیت کی کمی جیسے مسائل وسیع پیمانے پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
یہ بات نیشنل ہیلتھ اسٹریٹجی میں فوری تبدیلیاں لانے اور غذائیت کی کمی کا مسئلہ حل کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔ باوجود اس کے کہ گزشتہ بیس سال میں غذائیت کی کمی کی وجہ سے اموات میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن پھر بھی یہ بات المناک ہے کہ ابھی بھی سات لاکھ بچے بھوک اور غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں سنہ 2015 سے سنہ 2030تک سات کروڑ نو زائیدگان کی اموات ہوجائے گی ۔ ان فوت ہونے والے نو زائیدگان میں بھارت کے ا ٹھارہ فیصد نو زائیدگان شامل ہونگے۔ ہر برس پانچ سال کی عمر سے کم کے ساٹھ ہزار بچے ایسی بیماریوں سے مر جاتے ہیں، جو بروقت ٹیکے لگوانے کی صورت میں روکی جاسکتی ہیں۔
'پوشن ابھیان' نامی اسکیم کو سال 2022 تک غذائیت کی کمی کو ختم کرنے کے لئے متعارف کیا گیا تھا۔ لیکن غذائیت کی کمی کا مسئلہ آج بھی بڑھ رہا ہے۔نیشنل انسٹی چیوٹ آف نیو ٹریشن (این آئی این)نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ کے بچوں کے مقابلے میں بھارت کے بچے چالیس فیصد زائد ملاوٹی غذا کھاتے ہیں۔وٹامن اور منرل سپلائی سے متعلق متعارف کرائی گئی اسکیمیں عملی طور پر نافذ نہیں کی گئی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بہتر غذائیت، بروقت ٹیکے لگوانے اور جراثیم کش ادویات کو کم قیمت پر دستیاب رکھنے جیسے اقدامات سے بچوں کی اموات کو بڑے پیمانے پر روکا جاسکتا ہے۔ہمارے یہاں ہر برس اسہال اور نمونیہ جیسے امراض کی وجہ سے ہزاروں بچوں کی اموات ہوجاتی ہیں۔
نیتی آیوگ نے مشورہ دیا ہے کہ غذائیت کی کمی کو دور کرنے کا کام آنگن واڑی سینٹروں کے سپرد کیا جانا چاہیے۔ لیکن یہ کہتے ہوئے نیتی آیوگ نے بچوں کی بہبود سے متعلق اسکیموں کے حوالے سے نظام کی خرابیوں اور کرپشن کے مسئلے کو نظر انداز کردیا ہے۔جب سیاسی جماعتیں اور حکومتیں اس بات کو سمجھیں گی کہ ماں اور بچوں کی فلاح و بہبود میں ہی قوم کے مفادات مضمر ہیں، تب ہی بھارت پراعتماد طریقے سے اپنا سربلند رکھ پائے گا۔