ETV Bharat / bharat

لاک ڈاون کا ایکدم سے خاتمہ بہت خطرناک ہوسکتا ہے:ڈاکٹر بھٹا چاریہ

ای ٹی وی بھارت کے دیپانکر بوس کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹر بھٹاچاریہ نے کووِڈ 19- اور بھارت پر اسکے اثر کے بارے میں اظہارِ خیال کیا۔انہوں نے کہا کہ ٹیسٹنگ ہی وہ واحد طریقہ ہے کہ جس سے کورونا مریضوں کا پتہ لگایا جاسکے اور وائرس کو مزید پھیلنے سے روکا جاسکے۔ انٹرویو کے اقتباسات یہاں پیش کئے جارہے ہیں۔

لاک ڈاون کا ایکدم سے خاتمہ بہت خطرناک ہوسکتا ہے:ڈاکٹر بھٹا چاریہ
لاک ڈاون کا ایکدم سے خاتمہ بہت خطرناک ہوسکتا ہے:ڈاکٹر بھٹا چاریہ
author img

By

Published : May 2, 2020, 5:36 PM IST

سوال) آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین کورونا وائرس کیلئے ایک نیا ویکسین بنانے کیلئے کام کررہے ہیں،اگر یہ موثر ثابت ہوا تو ایک محفوظ کورونا وائرس ویکسین وبأ سے نکلنے کی سبیل فراہم کرسکتا ہے۔محققین پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ SARS-CoV-2 کا جینیاتی تسلسل جانتے ہیں اور وہ اینٹجن تیار کرنے کیلئے ڈی این اے تیکنیک کا استعمال کر رہے ہیں۔ کیا آپ کو اس سے کوئی اُمید ہے؟

ہاں،آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین کووِڈ 19- کے انسداد کیلئے ویکسین تیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔وہ پہلے ہی دو صحتمند اشخاص کو ویکسین دے چکے ہیں اور اب نتائج کا انتظار کر رہے ہیں تاہم یہ پہلا مرحلہ ہے جس میں اس ویکسین کے محفوظ ہونے اور قلیل حد تک اسکے اثرات یا افادیت کی جانچ کی جائے گی۔ رضاکاروں کی ایک بڑی تعداد (اس ویکسین کی) مزید آزمائشوں کیلئے تیار ہے۔پرنسپل انوسٹی گیٹر (پی آئی) کے ٹرائل کوارڈینیٹڑ کو اس تحقیق کے 80فیصد کامیاب ہونے کی اُمید ہے۔ ایک بار یہ کامیاب ہوگیا تو بڑے پیمانے پر ویکسین تیار کرنے کی ضرورت ہوگی جس میں بھارت ایک شریک ہے۔ یہ ویکسین سب سے پہلے برطانوی شہریوں کو دیا جائے گا اور اسکے بعد بقیہ دنیا کو البتہ ہمیں ابھی (تحقیق کے ) حتمی نتائج کا انتظار کرنا ہوگا۔

سوال) آئی سی ایم آر نے کہا ہے کہ بھارت میں کووِڈ 19-کی شرحِ مثبتیت 4.5 فیصد کے آس پاس ہے اور یہ کہ گراف نیچے آنے کی سمت میں ہے، کیا آپ اس سے اتفاق رکھتے ہیں؟

جی ہاں، اس سے اتفاق نہ کرنے کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے تاہم ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ ہم نے نمونہ کتنا (سیمپل سائز) لیا ہوا ہے اور کیا یہ نمائندگی کرنے کیلئے کافی ہے۔کسی نتیجے پر پہنچنے کیلئے اس بات کو دھیان میں رکھنا ضروری ہے۔ ہم مفروضات کی بنیاد پر نتائج اخذ نہیں کرسکتے ہیں۔

سوال) کیا آپکو لگتا ہے کہ ملک بھر،باالخصوص دیہات میں مزید ٹیسٹس کئے جانے چاہیئے تھے اور کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بہت گہری ٹیسٹنگ نہیں ہوئی ہے، اس لیے ہمیں اصل تصویر حاصل نہیں ہو پارہی ہے؟

ہاں، یہ بات درست ہے۔ٹیسٹنگ کِٹس کی دستیابی،آبادی تک رسائی اور سماجی فاصلہ بنائے رکھنا وہ عوامل ہیں کہ جن پر غور کیا جانا چاہیئے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مزید ٹیسٹس کی ضرورت ہے اور فقط ٹیسٹ کے ذریعہ ہی اعدادوشمارکا بہتر اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

سوال) بعض اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ چین سے لئے گئے ریپڈ قوتِ مدافعت پر مبنی خون کی جانچ کے ٹیسٹ کِٹ نقص زدہ ہیں اور ان کِٹوں کو واپس کردیا گیا ہے ۔چونکہ آر ٹی -پی سی آر کے نتائج آنے میں لمبی مدت لگتی ہے، کیا آپکو لگتا ہے کہ ریپڈ اینٹی باڈی کِٹس سے کووِڈ 19-کے مریضوں کے ٹیسٹ کرنے کا کوئی راستہ نکلتا ہے؟

دیکھیں، ٹیسٹنگ ہی وہ واحد طریقہ ہے کہ جس سے مریضوں کا پتہ لگایا جاسکے اور وائرس کو مزید پھیلنے سے روکا جاسکے۔ بات راستہ نکالنے کی نہیں ہے بلکہ حل تلاش کرنے کی کوشش کرنے کی ہے۔ آئی آئی ٹی -دہلی میں خود مختار ٹیسٹ کِٹ کی تیاری کی حالیہ پیشرفت یقیناََ ایک حوصلہ افزأ بات ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ بہت جلد دیگر ٹیسٹ کِٹ بھی جلد ہی بازار میں دستیاب ہوجائیں گے اور یہ کٹ سستے بھی ہونگے۔ اس میدان میں دنیا بھر میں تیز رفتار تحقیق جاری ہے اور مجھے لگتا ہے کہ نتائج بس آنے ہی والے ہیں۔

سوال) کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خلاف لڑائی لڑ رہی سرکار اور آئی سی ایم آر کیلئے آپ کا کیا مشورہ ہے؟

آئی سی ایم آر تو بھارت کی کورونا وائرس کے خلاف جاری لڑائی میں ایک انجن کی طرح ہے، موجودہ بحرانی حالات میں اس (آئی سی ایم آر) کیلئے دو ایک مشورے ضرور دینا چاہوں گا۔اول یہ کہ زیادہ مخصوص ٹیسٹ پیدا کرنے کیلئے مناسب حوصلہ افزائی ہونی چاہیئے۔مسلسل تجربات اور ایک علاج و معالجہ کا موثر طریقہ کار مرتب کرنا ہوگا۔ ہم بھٹکتے نہیں رہ سکتے ہیں،آئی سی ایم آر کو باہر کے ماہرین کے ساتھ مسلسل صلاح و مشورہ کرتے رہنا چاہیئے تاکہ اس مسئلے (کرونا وائرس کی وبا) پر ممکنہ حد تک وسیع خیالات جانے جاسکیں۔مجھے یقین ہے دیگر عالمی کوششوں کے ساتھ ساتھ ہمارے یہاں خود مختاری کے ساتھ ویکسین تیار کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ آئی سی ایم آر کو تحقیق کو فروغ دیتے رہنا چاہیئے اور ان تحقیق کو جاری رکھنے کیلئے اسے وافر فنڈس مہیا کیا جانا چاہیئے۔ کووِڈ 19-کے مریضوں کو سنبھالنے کی تربیت اور علاج کا طریقہ (ٹریٹمنٹ پروٹوکول) کی تیاری کا کام اعلانات سے نہیں ہوسکتا بلکہ ہمارے جیسے بڑے ملک میں ہمیں تربیت کے مناسب انتظام کے ساتھ کونے کونے تک پہنچنا ہوگا تاکہ عام لوگوں کو فائدہ پہنچایا جاسکے۔ ایک محقق کے نظریہ سے مجھے لگتا ہےکہ معلومات بانٹنے کیلئے انڈین جنرل آف میڈیکل ریسرچ ( آئی جے ایم آر) میں اعلیٰ معیار کے ریسرچ پیپر اور جائزے (ریویو پیپر) شائع کرانے چاہیئں۔ باالآخر میں کہوں گا کہ کووِڈ 19-سے متعلق سبھی تحقیق کی راہنمائی اور حوصلہ افزائی کیلئے ایک کووِڈ 19- ٹاسک فورس بنایا جانا چاہیئے۔

سوال) دونوں، بی سی جی کی آزمائشوں اور انسدادِ ملیریا کی دوائی ہائیڈروکلوروکوئن کے استعمال نے کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے معاملات میں کوئی فیصلہ کُن نتیجہ نہیں دکھایا ہے۔ آپ کے مطابق اسکی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟

بی سی جی کی وجہ سے مخصوص ایٹیجنوں کے خلاف تاخیر سے ہائیپر سنسیٹیو ردِعمل پیدا ہوتا ہے۔ مجھے اسکے کووِڈ 19-کے خلاف کارگر ہونے کی کوئی وجہ نہیں دکھائی دیتی ہے۔ہائیڈروکسی کلوروکوئن میں کارڈیو-ٹاکسٹی، کیو ٹی-پرولونگیشن اور خطرناک ارہیتھامیاس ہے۔ حالیہ تحقیق کے مطابق یہ موٗثر نہیں ہے۔ ہمیں متبادل تلاش کرنے ہونگے، ایک مؤثر ویکسین کیلئے مسلسل آزمائشیں ہی ہماری ضرورت کا حتمی جواب ہوسکتی ہیں۔

سوال) لاک ڈاون کے دورانیہ میں تو فقط اضافہ ہی ہورہا ہے۔ایک بار جب لاک ڈاون ختم ہوجائے،کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس کا خطرہ بزرگوں تک ہی رہے گا یا پھر یہ خطرہ دیگراں کو بھی ہوگا؟

وائرس کے خطرے میں تو ہر کوئی ہے، یہاں تک کہ لوگوں کو بار بار انفکشن ہونے کی بھی اطلاعات ہیں تاہم اقتصادی مضمرات کو زیرِ غور رکھتے ہوئے موجودہ لاک ڈاون مرحلہ وار طریقے پر اُٹھالیا جانا چاہیئے جیسا کہ یورپ اور دیگر ممالک میں تجویز ہوا ہے۔ لاک ڈاون کے اچانک واپس لئے جانے کے خطرناک مضمرات ہونگے کیونکہ ہم بہت بڑی آبادی ہیں۔

ایک معروف فزیشن اور ایمیونالوجی و مائیکروبایولوجی کے ماہر ڈاکٹر سُجیت کمار بٹاچاریہ انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) کے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ہیں۔ وہ نیشنل انسٹیچیوٹ آف کولرا اینڈ اینٹرک ڈیزیزس (این آئی سی ای ڈی) کے بھی ڈائریکٹر رہے ہیں۔ایچ آئی وی / ایڈس،کالا-ازار اور انفکشس ڈیزیزس کے ماہر ڈاکٹر بٹاچاریہ نیشنل اکیڈمی آف سائنسز (انڈیا) کے فیلو بھی ہیں۔

سوال) آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین کورونا وائرس کیلئے ایک نیا ویکسین بنانے کیلئے کام کررہے ہیں،اگر یہ موثر ثابت ہوا تو ایک محفوظ کورونا وائرس ویکسین وبأ سے نکلنے کی سبیل فراہم کرسکتا ہے۔محققین پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ SARS-CoV-2 کا جینیاتی تسلسل جانتے ہیں اور وہ اینٹجن تیار کرنے کیلئے ڈی این اے تیکنیک کا استعمال کر رہے ہیں۔ کیا آپ کو اس سے کوئی اُمید ہے؟

ہاں،آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین کووِڈ 19- کے انسداد کیلئے ویکسین تیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔وہ پہلے ہی دو صحتمند اشخاص کو ویکسین دے چکے ہیں اور اب نتائج کا انتظار کر رہے ہیں تاہم یہ پہلا مرحلہ ہے جس میں اس ویکسین کے محفوظ ہونے اور قلیل حد تک اسکے اثرات یا افادیت کی جانچ کی جائے گی۔ رضاکاروں کی ایک بڑی تعداد (اس ویکسین کی) مزید آزمائشوں کیلئے تیار ہے۔پرنسپل انوسٹی گیٹر (پی آئی) کے ٹرائل کوارڈینیٹڑ کو اس تحقیق کے 80فیصد کامیاب ہونے کی اُمید ہے۔ ایک بار یہ کامیاب ہوگیا تو بڑے پیمانے پر ویکسین تیار کرنے کی ضرورت ہوگی جس میں بھارت ایک شریک ہے۔ یہ ویکسین سب سے پہلے برطانوی شہریوں کو دیا جائے گا اور اسکے بعد بقیہ دنیا کو البتہ ہمیں ابھی (تحقیق کے ) حتمی نتائج کا انتظار کرنا ہوگا۔

سوال) آئی سی ایم آر نے کہا ہے کہ بھارت میں کووِڈ 19-کی شرحِ مثبتیت 4.5 فیصد کے آس پاس ہے اور یہ کہ گراف نیچے آنے کی سمت میں ہے، کیا آپ اس سے اتفاق رکھتے ہیں؟

جی ہاں، اس سے اتفاق نہ کرنے کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے تاہم ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ ہم نے نمونہ کتنا (سیمپل سائز) لیا ہوا ہے اور کیا یہ نمائندگی کرنے کیلئے کافی ہے۔کسی نتیجے پر پہنچنے کیلئے اس بات کو دھیان میں رکھنا ضروری ہے۔ ہم مفروضات کی بنیاد پر نتائج اخذ نہیں کرسکتے ہیں۔

سوال) کیا آپکو لگتا ہے کہ ملک بھر،باالخصوص دیہات میں مزید ٹیسٹس کئے جانے چاہیئے تھے اور کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بہت گہری ٹیسٹنگ نہیں ہوئی ہے، اس لیے ہمیں اصل تصویر حاصل نہیں ہو پارہی ہے؟

ہاں، یہ بات درست ہے۔ٹیسٹنگ کِٹس کی دستیابی،آبادی تک رسائی اور سماجی فاصلہ بنائے رکھنا وہ عوامل ہیں کہ جن پر غور کیا جانا چاہیئے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مزید ٹیسٹس کی ضرورت ہے اور فقط ٹیسٹ کے ذریعہ ہی اعدادوشمارکا بہتر اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

سوال) بعض اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ چین سے لئے گئے ریپڈ قوتِ مدافعت پر مبنی خون کی جانچ کے ٹیسٹ کِٹ نقص زدہ ہیں اور ان کِٹوں کو واپس کردیا گیا ہے ۔چونکہ آر ٹی -پی سی آر کے نتائج آنے میں لمبی مدت لگتی ہے، کیا آپکو لگتا ہے کہ ریپڈ اینٹی باڈی کِٹس سے کووِڈ 19-کے مریضوں کے ٹیسٹ کرنے کا کوئی راستہ نکلتا ہے؟

دیکھیں، ٹیسٹنگ ہی وہ واحد طریقہ ہے کہ جس سے مریضوں کا پتہ لگایا جاسکے اور وائرس کو مزید پھیلنے سے روکا جاسکے۔ بات راستہ نکالنے کی نہیں ہے بلکہ حل تلاش کرنے کی کوشش کرنے کی ہے۔ آئی آئی ٹی -دہلی میں خود مختار ٹیسٹ کِٹ کی تیاری کی حالیہ پیشرفت یقیناََ ایک حوصلہ افزأ بات ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ بہت جلد دیگر ٹیسٹ کِٹ بھی جلد ہی بازار میں دستیاب ہوجائیں گے اور یہ کٹ سستے بھی ہونگے۔ اس میدان میں دنیا بھر میں تیز رفتار تحقیق جاری ہے اور مجھے لگتا ہے کہ نتائج بس آنے ہی والے ہیں۔

سوال) کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خلاف لڑائی لڑ رہی سرکار اور آئی سی ایم آر کیلئے آپ کا کیا مشورہ ہے؟

آئی سی ایم آر تو بھارت کی کورونا وائرس کے خلاف جاری لڑائی میں ایک انجن کی طرح ہے، موجودہ بحرانی حالات میں اس (آئی سی ایم آر) کیلئے دو ایک مشورے ضرور دینا چاہوں گا۔اول یہ کہ زیادہ مخصوص ٹیسٹ پیدا کرنے کیلئے مناسب حوصلہ افزائی ہونی چاہیئے۔مسلسل تجربات اور ایک علاج و معالجہ کا موثر طریقہ کار مرتب کرنا ہوگا۔ ہم بھٹکتے نہیں رہ سکتے ہیں،آئی سی ایم آر کو باہر کے ماہرین کے ساتھ مسلسل صلاح و مشورہ کرتے رہنا چاہیئے تاکہ اس مسئلے (کرونا وائرس کی وبا) پر ممکنہ حد تک وسیع خیالات جانے جاسکیں۔مجھے یقین ہے دیگر عالمی کوششوں کے ساتھ ساتھ ہمارے یہاں خود مختاری کے ساتھ ویکسین تیار کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ آئی سی ایم آر کو تحقیق کو فروغ دیتے رہنا چاہیئے اور ان تحقیق کو جاری رکھنے کیلئے اسے وافر فنڈس مہیا کیا جانا چاہیئے۔ کووِڈ 19-کے مریضوں کو سنبھالنے کی تربیت اور علاج کا طریقہ (ٹریٹمنٹ پروٹوکول) کی تیاری کا کام اعلانات سے نہیں ہوسکتا بلکہ ہمارے جیسے بڑے ملک میں ہمیں تربیت کے مناسب انتظام کے ساتھ کونے کونے تک پہنچنا ہوگا تاکہ عام لوگوں کو فائدہ پہنچایا جاسکے۔ ایک محقق کے نظریہ سے مجھے لگتا ہےکہ معلومات بانٹنے کیلئے انڈین جنرل آف میڈیکل ریسرچ ( آئی جے ایم آر) میں اعلیٰ معیار کے ریسرچ پیپر اور جائزے (ریویو پیپر) شائع کرانے چاہیئں۔ باالآخر میں کہوں گا کہ کووِڈ 19-سے متعلق سبھی تحقیق کی راہنمائی اور حوصلہ افزائی کیلئے ایک کووِڈ 19- ٹاسک فورس بنایا جانا چاہیئے۔

سوال) دونوں، بی سی جی کی آزمائشوں اور انسدادِ ملیریا کی دوائی ہائیڈروکلوروکوئن کے استعمال نے کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے معاملات میں کوئی فیصلہ کُن نتیجہ نہیں دکھایا ہے۔ آپ کے مطابق اسکی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟

بی سی جی کی وجہ سے مخصوص ایٹیجنوں کے خلاف تاخیر سے ہائیپر سنسیٹیو ردِعمل پیدا ہوتا ہے۔ مجھے اسکے کووِڈ 19-کے خلاف کارگر ہونے کی کوئی وجہ نہیں دکھائی دیتی ہے۔ہائیڈروکسی کلوروکوئن میں کارڈیو-ٹاکسٹی، کیو ٹی-پرولونگیشن اور خطرناک ارہیتھامیاس ہے۔ حالیہ تحقیق کے مطابق یہ موٗثر نہیں ہے۔ ہمیں متبادل تلاش کرنے ہونگے، ایک مؤثر ویکسین کیلئے مسلسل آزمائشیں ہی ہماری ضرورت کا حتمی جواب ہوسکتی ہیں۔

سوال) لاک ڈاون کے دورانیہ میں تو فقط اضافہ ہی ہورہا ہے۔ایک بار جب لاک ڈاون ختم ہوجائے،کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس کا خطرہ بزرگوں تک ہی رہے گا یا پھر یہ خطرہ دیگراں کو بھی ہوگا؟

وائرس کے خطرے میں تو ہر کوئی ہے، یہاں تک کہ لوگوں کو بار بار انفکشن ہونے کی بھی اطلاعات ہیں تاہم اقتصادی مضمرات کو زیرِ غور رکھتے ہوئے موجودہ لاک ڈاون مرحلہ وار طریقے پر اُٹھالیا جانا چاہیئے جیسا کہ یورپ اور دیگر ممالک میں تجویز ہوا ہے۔ لاک ڈاون کے اچانک واپس لئے جانے کے خطرناک مضمرات ہونگے کیونکہ ہم بہت بڑی آبادی ہیں۔

ایک معروف فزیشن اور ایمیونالوجی و مائیکروبایولوجی کے ماہر ڈاکٹر سُجیت کمار بٹاچاریہ انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) کے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ہیں۔ وہ نیشنل انسٹیچیوٹ آف کولرا اینڈ اینٹرک ڈیزیزس (این آئی سی ای ڈی) کے بھی ڈائریکٹر رہے ہیں۔ایچ آئی وی / ایڈس،کالا-ازار اور انفکشس ڈیزیزس کے ماہر ڈاکٹر بٹاچاریہ نیشنل اکیڈمی آف سائنسز (انڈیا) کے فیلو بھی ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.