پروگرام کا آغاز پنڈت مدن موہن مالویہ جی کے مجسمے کی گل پوشی سے کیا گیا۔ ڈاکٹر آفتاب احمد آفاقی صدر شعبہ اردو نے موضوع کا تعارف کرایا اور مہمانوں کی گل پوشی کی۔
انہوں نے ای ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'جب اردو زبان کی بات آتی ہے تو عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اردو صرف شعر و شاعری کی زبان ہے، لیکن ایسا نہیں ہے اردو میں دوسرے مذاہب کے لٹریچر اور فلسفے کا بھی ذخیرہ موجود ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اردو میں رامائن، مہا بھارت، پاننی اور دوسری مختلف مذہبی کتابوں کے تراجم اردو میں موجود ہیں۔ اردو کا مقصد مختلف مذاہب کو آپس میں جوڑنا ہے۔'
افتتاحی پروگرام میں معروف ناقد و محقق شمیم طارق نے کلیدی خطبہ دیا جس میں اپنے طویل خطبے میں موضوع پر مختلف زاویوں سے روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ 'اس سمینار میں تین موضوعات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ ہندوستانی مذاہب، فلسفہ اور ادب تینوں اپنے آپ میں مکمل موضوعات ہیں اور ان پر سیمینار کیے جا سکتے ہیں۔'
واضح رہے کہ انہوں نے اپنی تقریر میں ان شعراء اور ادباء کا ذکر کیا جنہوں نے فلسفے پر بحث کی ہے۔ انہوں نے اس کے متعلق غالب کا خصوصی ذکر کیا۔
علاوہ ازیں انہوں نے اقبال کی شاعری میں فلسفہ پر اچھی بحث کی۔ انہوں نے بتایا کہ علامہ اقبال نے صرف اسلامی فلسفے پر بحث نہیں کی بلکہ دوسرے مذہبوں کے فلسفہ پر بھی بحث کی ہے۔
ماریشش سے تشریف لائیں اردو اسکالر ڈاکٹر بی بی ابی ناز جان علی نے ماریشش کے ادبی حالات سے لوگوں کو متعارف کرایا۔
پروگرام کی صدارت پروفیسر کملیش دت ترپاٹھی، چانسلر، مہاتما گاندھی انٹرنیشنل ہندی یونیورسٹی، وردھا نے کی۔ علاوہ ازیں پروفیسر راکیش مشرا، سابق پروفیسر انڈولوجی اور گاندھین اسٹڈیز، ویسٹ انڈیز اس پروگرام میں بطور مہمان خصوصی شامل ہوئے ۔
پروفیسر تر پاٹھی نے سمینار کے انعقاد پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ شعبہ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی کی یہ کاوش لائق تحسین ہے کہ اس نے عام روش سے مختلف عنوان کو منتخب کیا اور ایسے موضوع کا انتخاب کیا جس سے مذاہب کے بیچ کی دوری کم ہوگی۔
پروگرام میں مختلف یونیورسٹیز سے آئے مندوبین کے علاوہ شعبے کے ریسرچ سکالرز طلبا و طالبات اور شہر کے معززین میں خاص طور سے شاد عباسی ،خلیق الزماں، ظفراللہ ظفر، حاجی وسیم، اور وسیم حیدر ہاشمی وغیرہ شریک ہوئے۔
پروگرام کی نظامت ڈاکٹر مشرف علی نے کی جبکہ شکریے کی رسم ڈاکٹر عبدالسمیع نے ادا کی۔