ETV Bharat / bharat

کانپور کے ووٹرز کا رجحان کیا ہے؟ - Utter pradesh

ریاست اترپردیش بھارت کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ یہاں 80 پارلیمانی حلقے ہیں۔ ان میں کانپور سب سے اہمیت کا حامل ہے جس کی متعدد وجوہات ہیں۔ اس بار کانپور پارلیمانی حلقہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے؟

کانپور کے ووٹرز
author img

By

Published : Apr 29, 2019, 6:38 AM IST

اترپردیش کا کانپور شہر بھارت میں کاروبار کا مانچسٹر کہلاتا ہے، اونی و سوتی کپڑوں کی ملیں اور چمڑے کی صنعت (لیدر انڈسٹری) ہونے کی وجہ سے یہ شہر دنیا بھر میں اپنی الگ شناخت رکھتا ہے۔

کانپور کے ووٹرز

مگر اب بی آئی سی اور این ٹی سی کی 13 کپڑا ملیں بند ہوچکی ہیں حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے چمڑا صنعت پر بھی بحران چھایا ہوا ہے۔

کانپور کی چمڑا صنعت کی 444 فیکٹریوں میں سے اب 266 فیکٹریوں میں ہی کام جاری ہے۔

کانپور میں دو پارلیمانی حلقے ہیں، پہلا حلقہ نمبر 44 جو اکبرپور ہے، دوسرا حلقہ نمبر 43 جو کانپور نگر ہے۔2009 میں ان دونوں سیٹوں پر کانگریس کا قبضہ تھا لیکن 2014 میں ان دونوں سیٹوں پر بی جے پی کے امیدوار کامیاب ہوئے۔ .
واضح رہے کہ ان دونوں سیٹوں پر کانگریس اور بی جے پی میں زبردست مقابلہ رہتا ہے ۔

2014 کے عام انتخابات میں کانپور نگر پارلیمانی حلقہ سے بی جے پی کے سینیئر رہنما مرلی منوہر جوشی نے کانگریس کے سری پرکاش جیسوال کو شکست دی تھی۔ اکبر پور پارلیمانی حلقے سے کانگریس کے امیدوار راجہ رامپال کو بی جے پی کے دیویندر سنگھ بھولے نے شکست دی تھی۔

اس بار کانپور نگر حلقے پر کانگریس رہنما شری پرکاش جیسوال اور بی جے پی رہنما و اترپردیش حکومت میں کابینی وزیر ستیہ دیو پشاوری کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔ سماجوادی اور بی ایس پی نے اس حلقے سے رام کمار نشاد کو امیدوار بنایا ہے۔

پارلیمانی حلقہ اکبرپور پر بی جے پی اور کانگریس کے درمیان مقابلے میں اتحاد کے امیدوار کا پلڑا زیادہ بھاری نظر آرہا ہے کیونکہ اس پر ایس پی اور بی ایس پی کو 2009 اور 2014 میں ملے ووٹ اگر جوڑے جائیں تو ان پارٹیوں کو 2014 اور 2009 میں ملے ووٹوں سے کہیں زیادہ ووٹ بنتے ہیں اس لیے یہاں پر سہ رخی مقابلہ ہے۔

کانپور میں کل 10 اسمبلی حلقے ہیں، کانپور کے رائے دہندگان دو پارلیمانی حلقوں کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔ کانپور نگر حلقے پر کانپور کے پانچ اسمبلی حلقے ہیں جس میں گووند نگر۔ سیسہ مئو - آریہ نگر ۔ قدوائی نگر ۔اور کینٹ اسمبلی حلقہ شامل ہے۔

اکبر پور پارلیمانی نشست 2009 میں وجود میں آئی۔ اکبر پور پارلیمانی نشست کے لیے کانپور کے چار اسمبلی حلقہ کے رائے دہندگان ووٹ ڈالیں گے ،جس میں بٹھور، کلیان پور ، مہاراج پور ایس سی ایس ٹی کے لیے مختص گھاٹم پور اسمبلی حلقہ اور کانپور دیہات کے رنیا اسمبلی حلقے میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔ وہیں کانپور کی بلہور اسمبلی حلقہ کو مشرکھ پارلیمانی نشست میں شامل کیا گیا ہے۔

کانپور نگر پارلیمانی حلقہ میں 15،97،590 ووٹرز ہیں، جس میں مرد ووٹرز کی تعداد 8 لاکھ 74 ہزار 298 ہے اور خاتون ووٹرز کی تعداد 7 لاکھ 23 ہزار 147 ہے۔ اس نشست پر 145 خواجہ سرا ووٹرز بھی شامل ہے۔

اس نشست پر مسلم ووٹر 19 فیصد، برہمن ووٹر 18 فیصد، ایس سی ایس ٹی ووٹر 24 فیصد، پسماندہ طبقات کے ووٹر 18 فیصد، پانچ فیصد ٹھاکر ووٹر ہیں۔وہیں دیگر طبقات کے ووٹرز 18 فیصد ہیں۔

اسی نشست پر 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کے ڈاکٹر مولی منوہرجوشی کو 4 لاکھ 74 ہزار 712 ووٹ ملے تھے۔ جبکہ دوسرے نمبر پر رہے کانگریس کے امیدوار سری پرکاش جیسوال کو 2 لا کھ 51 ہزار 766 ووٹ ملے تھے۔

اکبرپور پارلیمانی نشست میں 17 لاکھ 43 ہزار 811 ووٹرز ہیں جس میں 3 لاکھ 20 ہزار برہمن ووٹرز ہیں، 1 لاکھ 90 ہزار ٹھاکر ووٹرز ہیں۔1 لاکھ 55 ہزار مسلم ووٹرز بھی یہاں کسی کی بھی قسمت کا فیصلہ کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

6 لاکھ ووٹ پسماندہ طبقے کے ہیں،2 لاکھ 25 ہزار دلت ووٹرز ہیں، 2 لاکھ 71 ہزار دیگر طبقے کے رائے دہندگان ہیں ۔ اس حلقے میں سہ رخی مقابلہ ہے، کیونکہ اس نشست سے بی جے پی سے 2014 میں جیتنے والے دیویندر سنگھ بھولے اور کانگریس سے 2009 میں رکن پارلیمان رہے راجہ رام پال کے درمیان سیدھی ٹکر ہیں، جبکہ ایس پی، بی ایس پی اتحاد سے نشا سچان انتخاب لڑ رہے ہیں۔ نشا سچان بی ایس پی سے ہیں اور گھاٹم پور سی بلاک سے پارٹی کے ذمہ دار بھی ہیں۔

گھاٹمپور اسمبلی نشست مختص نشست ہے۔ یہاں پر پسماندہ طبقات کی تعداد زیادہ ہے۔ یہاں پر 2014 میں ایس پی اور بی ایس پی کو ملنے والے ووٹ کانگریس اور بی جے پی کو ملنے والے ووٹ کے مابین معمولی فرق ہے اس لیے دونوں پارٹیوں کا ووٹ جوڑنے کے بعد اتحاد کا امیدوار کانگریس اور بی جے پی سے بھاری نظر آرہا ہے اس لیے یہاں پر سہ رخی مقابلہ ہے۔

کانپور شہر دہلی اور ہاوڑا ریلوے لائن اور ممبئی اور گورکھپور ریلوے لائن کا سنٹر ہے۔ یہاں سے روزانہ تقریباً 4 سو سے زائد ٹرینیں گزرتی ہیں اس اسٹیشن کا وجود 1928 میں ہوا تھا۔

یہاں پر آئی آئی ٹی، نیشنل شوگر انسٹی ٹیوٹ، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف پلس ریسرچ سینٹر، چندر شیکھر آزاد ایگریکلچر یونیورسٹی، ہارٹ کوٹ بٹلر ٹیکنیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ جسے ایچ پی ٹی آئی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

مشہور نانا راؤ پارک جو اب گلیش شنکر لائبریری کے نام سے مشہور ہے، چھترپتی شاہوجی مہاراج کانپور یونیورسٹی، ریزرو بینک آف انڈیا اس کے علاوہ کانپور میں دو میڈیکل کالج کی ہاسپٹل کی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ اور انجینئرنگ کالج موجود ہیں۔

کاروباری اعتبار سے کانپور کپڑا، لوہا چمڑا مشینری، زراعتی مشینری، دوائیاں، ریڈی میڈ اور گارمنٹس کا بازار ہے۔کانپور میں چھوٹے بڑے تقریباً 26 ہزار کارخانے اور صنعتیں ہیں۔کانپور کو تعلیمی اعتبار سے تعلیم کی منڈی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ پورے بھارت سے لوگ کاروبار کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے اس شہر کا رخ کرتے ہیں۔

اترپردیش کا کانپور شہر بھارت میں کاروبار کا مانچسٹر کہلاتا ہے، اونی و سوتی کپڑوں کی ملیں اور چمڑے کی صنعت (لیدر انڈسٹری) ہونے کی وجہ سے یہ شہر دنیا بھر میں اپنی الگ شناخت رکھتا ہے۔

کانپور کے ووٹرز

مگر اب بی آئی سی اور این ٹی سی کی 13 کپڑا ملیں بند ہوچکی ہیں حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے چمڑا صنعت پر بھی بحران چھایا ہوا ہے۔

کانپور کی چمڑا صنعت کی 444 فیکٹریوں میں سے اب 266 فیکٹریوں میں ہی کام جاری ہے۔

کانپور میں دو پارلیمانی حلقے ہیں، پہلا حلقہ نمبر 44 جو اکبرپور ہے، دوسرا حلقہ نمبر 43 جو کانپور نگر ہے۔2009 میں ان دونوں سیٹوں پر کانگریس کا قبضہ تھا لیکن 2014 میں ان دونوں سیٹوں پر بی جے پی کے امیدوار کامیاب ہوئے۔ .
واضح رہے کہ ان دونوں سیٹوں پر کانگریس اور بی جے پی میں زبردست مقابلہ رہتا ہے ۔

2014 کے عام انتخابات میں کانپور نگر پارلیمانی حلقہ سے بی جے پی کے سینیئر رہنما مرلی منوہر جوشی نے کانگریس کے سری پرکاش جیسوال کو شکست دی تھی۔ اکبر پور پارلیمانی حلقے سے کانگریس کے امیدوار راجہ رامپال کو بی جے پی کے دیویندر سنگھ بھولے نے شکست دی تھی۔

اس بار کانپور نگر حلقے پر کانگریس رہنما شری پرکاش جیسوال اور بی جے پی رہنما و اترپردیش حکومت میں کابینی وزیر ستیہ دیو پشاوری کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔ سماجوادی اور بی ایس پی نے اس حلقے سے رام کمار نشاد کو امیدوار بنایا ہے۔

پارلیمانی حلقہ اکبرپور پر بی جے پی اور کانگریس کے درمیان مقابلے میں اتحاد کے امیدوار کا پلڑا زیادہ بھاری نظر آرہا ہے کیونکہ اس پر ایس پی اور بی ایس پی کو 2009 اور 2014 میں ملے ووٹ اگر جوڑے جائیں تو ان پارٹیوں کو 2014 اور 2009 میں ملے ووٹوں سے کہیں زیادہ ووٹ بنتے ہیں اس لیے یہاں پر سہ رخی مقابلہ ہے۔

کانپور میں کل 10 اسمبلی حلقے ہیں، کانپور کے رائے دہندگان دو پارلیمانی حلقوں کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔ کانپور نگر حلقے پر کانپور کے پانچ اسمبلی حلقے ہیں جس میں گووند نگر۔ سیسہ مئو - آریہ نگر ۔ قدوائی نگر ۔اور کینٹ اسمبلی حلقہ شامل ہے۔

اکبر پور پارلیمانی نشست 2009 میں وجود میں آئی۔ اکبر پور پارلیمانی نشست کے لیے کانپور کے چار اسمبلی حلقہ کے رائے دہندگان ووٹ ڈالیں گے ،جس میں بٹھور، کلیان پور ، مہاراج پور ایس سی ایس ٹی کے لیے مختص گھاٹم پور اسمبلی حلقہ اور کانپور دیہات کے رنیا اسمبلی حلقے میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔ وہیں کانپور کی بلہور اسمبلی حلقہ کو مشرکھ پارلیمانی نشست میں شامل کیا گیا ہے۔

کانپور نگر پارلیمانی حلقہ میں 15،97،590 ووٹرز ہیں، جس میں مرد ووٹرز کی تعداد 8 لاکھ 74 ہزار 298 ہے اور خاتون ووٹرز کی تعداد 7 لاکھ 23 ہزار 147 ہے۔ اس نشست پر 145 خواجہ سرا ووٹرز بھی شامل ہے۔

اس نشست پر مسلم ووٹر 19 فیصد، برہمن ووٹر 18 فیصد، ایس سی ایس ٹی ووٹر 24 فیصد، پسماندہ طبقات کے ووٹر 18 فیصد، پانچ فیصد ٹھاکر ووٹر ہیں۔وہیں دیگر طبقات کے ووٹرز 18 فیصد ہیں۔

اسی نشست پر 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کے ڈاکٹر مولی منوہرجوشی کو 4 لاکھ 74 ہزار 712 ووٹ ملے تھے۔ جبکہ دوسرے نمبر پر رہے کانگریس کے امیدوار سری پرکاش جیسوال کو 2 لا کھ 51 ہزار 766 ووٹ ملے تھے۔

اکبرپور پارلیمانی نشست میں 17 لاکھ 43 ہزار 811 ووٹرز ہیں جس میں 3 لاکھ 20 ہزار برہمن ووٹرز ہیں، 1 لاکھ 90 ہزار ٹھاکر ووٹرز ہیں۔1 لاکھ 55 ہزار مسلم ووٹرز بھی یہاں کسی کی بھی قسمت کا فیصلہ کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

6 لاکھ ووٹ پسماندہ طبقے کے ہیں،2 لاکھ 25 ہزار دلت ووٹرز ہیں، 2 لاکھ 71 ہزار دیگر طبقے کے رائے دہندگان ہیں ۔ اس حلقے میں سہ رخی مقابلہ ہے، کیونکہ اس نشست سے بی جے پی سے 2014 میں جیتنے والے دیویندر سنگھ بھولے اور کانگریس سے 2009 میں رکن پارلیمان رہے راجہ رام پال کے درمیان سیدھی ٹکر ہیں، جبکہ ایس پی، بی ایس پی اتحاد سے نشا سچان انتخاب لڑ رہے ہیں۔ نشا سچان بی ایس پی سے ہیں اور گھاٹم پور سی بلاک سے پارٹی کے ذمہ دار بھی ہیں۔

گھاٹمپور اسمبلی نشست مختص نشست ہے۔ یہاں پر پسماندہ طبقات کی تعداد زیادہ ہے۔ یہاں پر 2014 میں ایس پی اور بی ایس پی کو ملنے والے ووٹ کانگریس اور بی جے پی کو ملنے والے ووٹ کے مابین معمولی فرق ہے اس لیے دونوں پارٹیوں کا ووٹ جوڑنے کے بعد اتحاد کا امیدوار کانگریس اور بی جے پی سے بھاری نظر آرہا ہے اس لیے یہاں پر سہ رخی مقابلہ ہے۔

کانپور شہر دہلی اور ہاوڑا ریلوے لائن اور ممبئی اور گورکھپور ریلوے لائن کا سنٹر ہے۔ یہاں سے روزانہ تقریباً 4 سو سے زائد ٹرینیں گزرتی ہیں اس اسٹیشن کا وجود 1928 میں ہوا تھا۔

یہاں پر آئی آئی ٹی، نیشنل شوگر انسٹی ٹیوٹ، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف پلس ریسرچ سینٹر، چندر شیکھر آزاد ایگریکلچر یونیورسٹی، ہارٹ کوٹ بٹلر ٹیکنیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ جسے ایچ پی ٹی آئی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

مشہور نانا راؤ پارک جو اب گلیش شنکر لائبریری کے نام سے مشہور ہے، چھترپتی شاہوجی مہاراج کانپور یونیورسٹی، ریزرو بینک آف انڈیا اس کے علاوہ کانپور میں دو میڈیکل کالج کی ہاسپٹل کی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ اور انجینئرنگ کالج موجود ہیں۔

کاروباری اعتبار سے کانپور کپڑا، لوہا چمڑا مشینری، زراعتی مشینری، دوائیاں، ریڈی میڈ اور گارمنٹس کا بازار ہے۔کانپور میں چھوٹے بڑے تقریباً 26 ہزار کارخانے اور صنعتیں ہیں۔کانپور کو تعلیمی اعتبار سے تعلیم کی منڈی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ پورے بھارت سے لوگ کاروبار کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے اس شہر کا رخ کرتے ہیں۔

Intro:Body:

News


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.