ذرائع کے مطابق بھارت اور روس نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ براہموس میزائل کی فروخت سے حاصل ہونے والی صد فی فیصد آمدنی کو میزائل کے مزید ترقیاتی کاموں کے لیے استعمال کیا جائے گا، یہ فیصلہ اس لئے کیا گیا ہے تاکہ کروز پروجیکٹائل کو تکنیکی طور پر اپ گریڈ کیا جاسکے۔
ایشیاء اور لاطینی امریکہ کے کم از کم چار ممالک دنیا کے تیز ترین کروز براہموس میزائل کے اراضی اور بحری ورژن کو دیکھتے ہوئے اسے خریدنے کے خواہشمند ہیں، متعدد ممالک جیسے ویتنام، فلپائن، انڈونیشیا، ملیشیا، برازیل، چلی اور وینزویلا کے نام ممکنہ خریدار کے طور پر شامل ہیں جو کافی عرصوں سے اسے خریدنا چاہتے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ دوسرے ممالک کو یہ برآمد کرنا اس بات کی بھی رہنمائی کرے گی کہ بھارت کے ساتھ اس ملک کے تعلقات کیسے ہیں، جو 'اسٹریٹیجک آوٹریچ' کی پالیسی کو ایک نئی جہت فراہم کرے گا۔
براہموس میزائل کے مشن میں "براہموس کی برآمد کے ذریعہ مشترکہ منصوبے کے شراکت داروں کے دوست ممالک کے ساتھ اسٹریٹیجک اتحاد کو مضبوط بنانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔"
ان ممالک کا نام بتانے سے انکار کرتے ہوئے ذرائع نے بتایا کہ اس کروز میزائل کو اس سال کے آخر اور اور اگلے سال تک برآمد کیا جاسکتا ہے۔
کووڈ 19 وبائی مرض کی وجہ سے برآمدی منصوبوں پر عمل نہیں کیا جاسکا ہے اور اس کے نتیجے میں اسے برآمد کرنے میں تاخیر ہوئی ہے۔ ابھی تک براہموس کے ایئر ورژن کو برآمد کرنے کے لئے پیش نہیں کیا گیا ہے۔
یہ تین ٹن براہموس 450 کلومیٹر کی تیزی سے اسٹرائیک کرتا ہے۔ 2.8 ماچ (ایک گھنٹہ میں 3347 کلومیٹر) کی تیز رفتاری کے ساتھ یہ 300 کلو گرام وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت سے لیس ہے۔ بھارت بھی اس بے مثال 'ورٹیکل ڈیپ ڈائیو' صلاحیت والے براہموس ورژن کو چلانے کا خواہشمند ہے جو ہمالیہ کی طرح اونچی پہاڑی میں ہونے والی جنگ میں ہماری قوت کو مزید بڑھانے کا دم رکھتا ہے۔
تمام براہموس میزائل بھارت میں براہموس ایرو اسپیس کے ذریعہ تیار کیے گئے ہیں جسے سنہ 1988 میں متعلقہ حکومت کے مابین ایک معاہدے کے ذریعہ بھارتی حکومت کی ڈیفینس ریسرچ اینڈ دیولپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او) اور روسی سرکاری ملکیت والی این پی او مشینوں اسٹورینیا کے مابین ایک مشترکہ منصوبہ کے تحت تشکیل کیا گیا تھا۔
اس معاہدے میں بھارت کا 50.5 فیصد حصہ ہے جبکہ روس کا 49.5 فیصد حصہ ہے۔