سنہ 2012 میں اتر پردیش کے بریلی میں ہوئے فرقہ وارانہ فساد میں گولی چلانے کا آرڈر دینے والے افسر کا نام اب تک طے نہیں ہو سکا ہے۔
اس معاملے کی تحقیقات کرنے والے اے ڈی ایم فائننس منوج کمار نے ایس ایس پی سے دو جماعتوں کے درمیان تصادم کے بعد فائرنگ کا حکم دینے والے افسر کی رپورٹ طلب کی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ پولس کی گولی سے ہلاک ہوئے عمران کے اہل خانہ کو سات برسوں کے بعد بھی انصاف نہیں ملا ہے۔
غور طلب ہے کہ بریلی میں 22 جولائی سنہ 2012 میں شہر کے شہامت گنج علاقے میں تراویح کے دوران کانوریے تیز آواز میں ڈی جے بجا رہے تھے، تھبی انہیں روکنے کے بعد فساد ہو گیا۔
دونوں جانب سے آتشزدگی، پتھراؤ اور پولس نے ہجوم کوقابو کرنے کے لیئے فائرنگ کی تھی جس میں 22 سالہ عمران نامی نوجوان کی موت ہو گئی تھی۔ اب اس فائرنگ کا حکم دینے کی فائل دوبارہ سے کھولی گئی ہے۔
فساد کے ایک ماہ بعد علاقائی تھانہ بارہ دری پولس نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ فساد کو قابو کرنے کے لیے پولس نے اے ڈی ایم سٹی راجیش کمار رائے کے حکم پر گولی چلائی تھی۔ لیکن راجیش کمار رائے نے گولی چلانے کا حکم دینے کی بات سے صاف انکار کر دیا ہے۔
انہوں نے یہ کہ کر معاملے کو اور پیچیدہ بنا دیا کہ موقع پر مجھ سے بھی سینئر افسر موجود تھے اور ان کے کہنے سے گولی چلائی گئی تھی۔
اُس وقت کی سماجوادی پارٹی کی حکومت نے معاملے کی مجسٹریٹ سطح پر تحقیقات کا حکم دیا تھا لیکن اب تک تحقیقات مکمل نہیں کی جا سکی ہے۔
فی الحال معاملے کی تحقیقات اے ڈی ایم فائننس اینڈ ریونیو منوج کمار کر رہے ہیں، اور تحقیقات کے نام پر اب تک صرف تھانہ بارہ دری کے انسپکٹر اور کانسٹیبلز کے بیان درج کیے گئے ہیں۔