اردو شاعری کے نامور شاعر استاد شیخ محمد ابراہیم ذوق نے اپنی بیشتر زندگی عالیشان محل میں گزاردی لیکن ان کی وفات کے بعد لوگوں نے انہیں بھلادیا۔
اطلاع کے مطابق سنہ 2002 سے قبل ان کے مزار کی جگہ پر ایک پیشاب گھر ہوا کرتا تھا جسے بعد میں ایک مزار کی شکل دے دی گئی۔
قلعہ معلہ کے شاعر استاد ذوق سادا سلیس زبان میں شعر کہتے تھے جس کی وجہ سے نہ خواندہ افراد بھی ان کی شاعری کو پسند کرتے تھے اس کے باوجود تقریباً 150 برس تک ان کا مزار تاریکی میں گم رہا۔
دارالحکومت دہلی کے نبی کریم علاقہ میں استاد ذوق کے مزار کی چار دیواری کو آثار قدیمہ کے ذریعہ ضرور تحفظ دیا گیا ہے، لیکن اس کی حالت دیکھ کر یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اگر استاد ذوق زندہ ہوتے تو اس حالت کو دیکھ کر وہ پھر سے مر جاتے۔
علاقے کے لوگوں نے بتایا کہ استاد ذوق کے مزار کے باہر شام ہوتے ہی شرابی اور جواریوں کی محفل سجنے لگتی ہے گندگی اتنی کہ ناک پر ہاتھ رکھے بغیر مزار کے پاس سے گزرنا ممکن نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: حاجیوں پر ٹیکس سے کتنی آمدنی ؟ حساب کتاب نہیں !
نبی کریم کے لوگوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ جب اس مزار کی چار دیواری کی گئی تھی اس دوران کئی بار محفل سماع سجی اور قوالیوں کی آواز گونجی لیکن یہ محض تین چار برس ہی چلا اور اس کے بعد سے یہاں پر نہ تو قوالی کی آواز سنائی دی اور نہ ہی محفل سجتی نظر آئی۔