سپریم کورٹ نے گجرات حکومت سے بلقیس بانو کو معاوضے کے طور پر 50 لاکھ روپے، اس کے علاوہ ان کے پسند کی جگہ پر ایک مکان اور سرکاری ملازمت فراہم کرنے کی ہدا یت دی ہے۔
عدالت کے فیصلے کے بعد بلقیس بانو اور ان کے شوہر نے دہلی کے پریس کلب میں میڈیا سے بات چیت کی اور معاوضے کا ایک حصہ جنسی زیادتی کی شکار خواتین اور بچیوں کو عطیہ کرنے کا اعلان کیا۔
ان کا کہنا تھا:'میں ان پیسوں کا ایک حصہ فرقہ وارانہ فسادات کا شکار ہونے والی خواتین کو انصاف دلانے اور ان کے بچوں کو تعلیم و تربیت فراہم کرنے پر خرچ کرنا چاہتی ہوں۔'
بلقیس نے کہا کہ ان کی اپنی تمام خواہشیں اور ارمان ختم ہوچکے ہیں لیکن اپنی بیٹی کی بہتر پرورش کے خواب کو زندہ رکھا ہے۔
وہ معاوضے کے طور پر ملنے والے پیسے کا استعمال اپنے بچوں کی تعلیم اور انہیں ایک بہتر زندگی فراہم کرنے کے لیے کریں گی۔
وہ اپنی بیٹی کو وکیل بنانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا چاہتی ہیں۔ بلقیس کو یقین ہے کہ ان کی بیٹی وکیل بننے کے بعد کل اسی عدالت میں دوسروں کو انصاف دلانے کے لیے کھڑی ہوں گی۔
اپنی عدالتی جد و جہد کے تعلق سے ان کا کہنا تھا:'میں نے ہیمشہ کہا کہ میری فتح ان تمام خواتین کی جیت ہے جنہوں نے ظلم و ستم کا سامنا کیا، مگر کبھی عدالت تک نہیں پہنچ پائیں۔'
اس سے قبل گجرات کی حکومت نے بلقیس بانو کو پانچ لاکھ روپے کی پیشکش کی تھی، لیکن انہوں نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
سنہ 2002 میں گجرات میں ہونے والے مسلم مخالف فسادات کے دوران احمدآباد کے قریب رھنی کپور گاؤں میں ایک مشتعل ہجوم نے بلقیس کے اہل خانہ پر حملہ کیا تھا۔ اس حملے کے دوران پانچ مہینے سے حاملہ بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا اور ان کی تین سالہ لڑکی صالحہ کو بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔ اس وقت بلقیس بانو 20 برس کی تھیں۔
بلقیس بانو کیس کی ابتدا احمدآباد میں ہوئی تھی۔ لیکن ثبوتوں سے چھیڑ چھاڑ اور گواہوں کو ڈرانے دھمکانے کے خدشے کے پیش نظر اس کیس کو 2004 میں بامبے ہائی کورٹ منتقل کر دیا گیا تھا۔
چار برس بعد 21 جنوری 2008 کو ایک خصوصی عدالت نے 11 افراد کو قتل اور گینگ ریپ کا قصوار قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی تھی، جبکہ اس معاملے میں پولیس اور ڈاکٹر سمیت سات افراد کو بری کر دیا گیا تھا۔
سنہ 2002 میں ہونے والے مسلم مخالف فسادات میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے جس میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
گجرات کے گودھرا اسٹیشن پر سابرمتی ایکسپریس میں آگ لگنے کی وجہ تقریبا 60 کارسیوک ہلاک گئے تھے۔ اس سانحہ کے بعد ریاست بھر میں فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔