ایسوسی ایشن کی صدر رتی راؤ، جنرل سکریٹری مینا تیواری اور سکریٹری کویتا کرشنن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ 'اس انکاؤنٹر سے اب یہ بتایا جائے گا کہ جنسی زیادتی کی متاثرہ کو انصاف مل گیا اور متاثرہ کا بدلہ لے لیا گیا ہے لیکن یہ انصاف جعلی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ 'ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ گرفتار شدہ چار افراد مشتبہ تھے، ہم نہیں جانتے کہ حراست میں ہلاک چاروں لوگ واقعی حیدرآباد میں ڈاکٹر کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کی واردات میں ملوث تھے یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'حیدرآباد پولیس اس قسم کی حراست میں قتل کے لیے بدنام ہے، سنہ 2008 میں تلنگانہ پولیس نے تیزاب حملے کے معاملے میں ملوث تین لوگوں کو حراست میں قتل کر دیا تھا لیکن اس واقعہ کی وجہ سے حیدرآباد، تلنگانہ یا بھارت میں خواتین کے خلاف جرائم پر روک نہیں لگ سکی اور خواتین پر تیزاب حملہ، جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعات مسلسل ہو رہے ہیں۔
آل انڈیا پروگریسیو ویمنس ایسوسی ایشن کے بیان میں مزید کہا گیا کہ 'ہم اس مبینہ انکاؤنٹر کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں اور اس میں ذمہ دار پولیس اہلکاروں کو گرفتار کرکے ان پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے نیز عدالت میں یہ ثابت کرنے کے لیے کہا جائے کہ وہ تمام چار افراد اپنے دفاع میں مارے گئے، یہ نا صرف انسانی حقوق کے لیے بلکہ خواتین کے حقوق کے لیے بھی کیوں اہم ہے؟ کیونکہ ایک پولیس فورس جو قتل کر سکتی ہے، جس سے کوئی بھی سوال نہیں پوچھا جا سکتا۔