سنہ 1528 : ایودھیا میں مغل شہنشاہ بابر نے یہ مسجد تعمیر کروائی تھی، جس کی وجہ سے اس کو بابری مسجد کے نام سے جانا جاتا ہے۔
سنہ 1853 : ہندوؤں کا الزام کہ بھگوان رام کے مندر کو توڑ کر مسجد کی تعمیر ہوئی۔ اس سلسلے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان پہلی مرتبہ تنازع ہوا۔
سنہ 1859: برطانوی حکومت نے تاروں کی ایک باڑھ کھڑی کرکے اندرونی اور بیرونی احاطہ میں مسلمانوں اور ہندووں کو الگ الگ عبادت کی اجازت دی۔
یہ بھی پڑھیں: بابری مسجد کو مسمار کرنے کے بعد کس نے کیا کہا تھا
سنہ 1885: پہلی بار معاملہ عدالت میں پہنچا۔ مہنت رگھوبر داس نے فیض آباد عدالت میں بابری مسجد سے متصل ایک رام مندر کی تعمیر کی اجازت کے لیے عرضی دائر کی۔
سنہ 1949 ، 23 دسمبر : تقریبا 50 ہندوؤں نے مسجد کے مرکزی مقام پر بھگوان رام کی مورتی رکھ دی۔ اس کے بعد اس مقام پر ہندو وں نے پوجا ارچنا شروع کر دی، جبکہ مسلمانوں نے نماز پڑھنی بند کر دی۔
سنہ 1950 ، 16 جنوری : گوپال سنگھ وشارد نے فیض آباد عدالت میں ایک اپیل دائر کر کے رام للا کی پوجا کی خصوصی اجازت مانگی۔ انہوں نے وہاں سے مورتی ہٹانے پر عدالتی روک کی بھی کوشش کی۔
سنہ 1950، 5 دسمبر: مہنت پرم ہنس رام چندر داس نے پوجا جاری رکھنے اور بابری مسجد میں رام مورتی رکھنے کے لئے عرضی داخل کی۔ مسجد کو 'ڈھانچہ' کا نام دیا گیا۔
سنہ 1959، 17 دسمبر: نرموہی اکھاڑا نے بابری مسجد کی منتقلی کا مقدمہ دائر کیا۔
سنہ 1962، 18 دسمبر: اتر پردیش سنی وقف بورڈ نے بابری مسجد کی ملکیت کا مقدمہ دائر کیا۔
سنہ 1984: وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے بابری مسجد کا تالا کھولنے اور مندر کی تعمیر کے لیے مہم شروع کی، جس کے لیے کمیٹی بھی قائم کی گئی۔
یکم فروری، 1986: فیض آباد ضلع جج نے ہندووں کو پوجا کی اجازت دی۔ تالا دوبارہ کھولا گیا۔ مسلمانوں نے بابری مسجد ایکشن کمیٹی کی تشکیل دی۔
جون 1989: بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے وی ایچ پی کی باضابطہ حمایت کرنی شروع کردی۔
یکم جولائی 1989: بھگوان رام للا براجمان نام سے پانچواں مقدمہ دائر کیا گیا۔
نو نومبر9 سنہ 1989: اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کی حکومت نے بابری مسجد کے نزدیک سنگ بنیاد کی اجازت دی۔
ستمبر25 سنہ 1990: بی جے پی صدر لال کرشن اڈوانی نے گجرات کے سومناتھ سے اتر پردیش کے ایودھیا تک رتھ یاترا نکالی، جس کے بعد ملک بھر میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔
نومبر 1990: اڈوانی کو بہار کے سمستی پور میں گرفتار کر لیا گیا۔ بی جے پی نے اس وقت کے وزیر اعظم وی پی سنگھ کی حکومت سے حمایت واپس لے لی۔ وی پی سنگھ نے بائیں بازو کی جماعتوں اور بی جے پی کی حمایت سے حکومت بنائی تھی، بعد میں انہوں نے استعفی دے دیا۔
اکتوبر 1991: اترپردیش میں کلیان سنگھ حکومت نے بابری مسجد کے اردگرد کی 2.77 ایکڑ زمین کو اپنے قبضے میں لے لیا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سینیئر رہنما لال کرشن اڈوانی نے گجرات کے سومناتھ مندر سے رام مندر کے لیے رتھ یاترا نکال کر سیاسی طوفان کھڑا کر دیا۔
سنہ 1991 : کانگریس ایک بار پھر دہلی میں بر سر اقتدار آئی اور پی وی نرسمہا راؤ وزیر اعظم بنے لیکن رام مندر کی تحریک کے طفیل میں ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں پہلی بار کلیان سنگھ کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت بنی۔
کلیان سنگھ حکومت نے متنازع کیمپس کے قریب مجوزہ رام پارک کی تعمیر کے لیے وی ایچ پی کو 42 ایکڑ زمین دے دی ۔ملک بھر سے آنے والے کارسیوکوں کے قیام کے لیے متازع احاطے سے ملحق شامیانے اور ٹینٹ لگائے گئے تھے۔ انھیں لگانے کے لیے کدال،بیلچے اور رسیاں بھی لائی گئیں جو بعد میں مسجد کے گنبد پر چڑھنے اور اسے توڑنے کے کام میں آئیں۔
مجموعی طور پر متنازع مقام کے آس پاس کے علاقے پر کار سیوکوں کا ہی قبضہ تھا۔ ان لوگوں نے چار پانچ دن قبل ہی بعض قریبی مزاروں کو نقصان پہنچا کر اور مسلمانوں کے مکانوں کو آگ لگا کر اپنی جارحیت کا اظہار کر دیا تھا۔
اس کے باوجود سپریم کورٹ کے مقرر کردہ مبصر ضلعی جج پریم شنکر گپتا کہہ رہے تھے کہ علامتی کار سیوا پر امن طور پر کرانے کے لیے سارے انتظام اچھی طرح سے کیے گئے ہیں۔
چھ دسمبر 1992: ہزاروں کی تعداد میں کار سیوکوں نے ایودھیا پہنچ کر بابری مسجد مسمار کردی، جس کے بعد بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ نے مسجد کی تعمیر نو کا وعدہ کیا۔
سولہ دسمبر 1992: مسجد کے انہدام کی جانچ کے لیے ایم ایس لبراہن کمیشن کی تشکیل عمل میں آئی۔
جنوری 2002: وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی نے اپنے دفتر میں ایک ایودھیا محکمہ شروع کیا، جس کام تنازع کو حل کرنے کے لئے ہندوؤں اور مسلمانوں سے گفت و شنید کرنا تھا۔
اپریل 2002: ایودھیا کے متنازع مقام پر مالکانہ حق کو لے کر ہائی کورٹ کے تین ججوں کی بنچ نے سماعت شروع کی۔
مارچ اگست 2003: الہ آباد ہائی کورٹ کی ہدایت پر محکمہ آثار قدیمہ نے ایودھیا میں کھدائی شروع کی۔
ستمبر 2003: عدالت نے فیصلہ سنایا کہ مسجد کو منہدم کرنے کے لیے اکسانے والے سات ہندو لیڈروں کو سماعت کے لئے طلب کیا جائے۔
اکتوبر 2004: اڈوانی نے ایودھیا میں مندر کی تعمیر کے بی جے پی کے عزم کا اعادہ کیا۔
جولائی 2009: لبراہن کمیشن نے قیام کے 17 سال بعد وزیر اعظم منموہن سنگھ کو اپنی رپورٹ سونپی۔
اٹھائیس ستمبر 2010: سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کو متنازع معاملہ میں فیصلہ دینے سے روکنے والی عرضی خارج کرتے ہوئے فیصلہ سنانے کی راہ ہموار کر دی۔
30 ستمبر 2010: الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے تاریخی فیصلہ سنایا، جس میں زمین کا بندر بانٹ کر دیا گیا۔
سنہ 2019 میں یہ معاملہ سپریم کورٹ میں شروع ہوا۔ پانچ رکنی آئینی بینچ نے اس کی سماعت شروع کی جس کی سربراہی چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس رنجن گوگوئی نے کی۔
9 نومبر 2019 : بھارت کی تاریخ کا سب سے قدیم اور متنازعہ ایودھیا مقدمہ پر سپریم کورٹ نے 9 نومبر کو فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ نے متنازع اراضی کو ہندو فریق کے حوالے کرنے کا حکم دیا جبکہ مسلم فریق کو پانچ ایکڑ زمین ایودھیا میں ہی کسی جگہ دینے کا حکم دیا۔ اس فیصلے کا اکثریتی طبقے نے استقبال کیا جبکہ ایک طبقے نے اسے ” آستھا کی بنیاد پر دیا گیا فیصلہ ” قرار دیا۔
5 اگست 2020: رام مندر کی تعمیر کے لیے سنگ بنیاد رکھ دیا گیا۔ سنگ بنیاد کی تقریب میں وزیراعظم نریندر مودی، یوپی کے وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ، یوپی کی گورنر آنندی بین پٹیل، آر ایس ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت سمیت سرکرہ رہنما و شخصیات موجود رہیں۔