چیف جسٹس رنجن گگوئی کی عدالت میں پانچ رکنی بنچ کے سامنے ہندواور مسلم فریقوں کی جانب سے بحث مکمل ہوجائے گی۔
آج کا ہی دن مولڈنگ کا دن بھی ہے، جس میں چیف جسٹس دونوں فریقوں سے ایک سمجھوتہ پرآنے کاموقع دیں گے اور پوچھیں گے کہ کون فریق کس حدتک لچک دکھا سکتا ہے۔ ہندو اور مسلم فریق دونوں کی بحثوں سے اب تک جوصاف ہواہے اس کے مطابق دونوں فریق کے لیے لچک دکھانا کافی مشکل ہے، تاہم یہ کہا جا رہا ہے کہ مسلم فریق کی جانب سے اراضی میں لچک ظاہر کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ یعنی مسلم فریق عدالت میں ایک حدتک لچک دکھا سکتے ہیں۔
اس تعلق سے مزیدوضاحت کرتے ہوئے بابری ایکشن کمیٹی کے ممبر ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے بتایا کہ ہم اسی حدتک لچک دکھا سکتے ہیں، جومعاملہ براہ راست مسجد سے جڑانہ ہو، مسجدکی زمین پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔
انہوں نے بتایا کہ 60 ایکڑ سے زائداراضی کو حکومت کی طرف سے ایکوائر کیا گیا ہے، اس میں کچھ مسجدکاحصہ نہیں ہیں، اس میں ہم لچک دکھا سکتے ہیں مگر مسجد کی زمین پر کوئی سمجھوتہ نہیں۔
واضح ہوکہ عدالت عظمیٰ نے بابری۔ایودھیامعاملہ پرالٰہ آبادہائی کورٹ کے فیصلہ پر داخل عرضیوں پر کاروائی 2010 سے شروع کی تھی۔ 9 مئی 2011 کو سپریم کورٹ میں پہلی سماعت ہوئی تب سے آج تک سپریم کورٹ میں 91 شنوائی ہوئی ہے۔اس درمیان ثالثی کی کئی کوششیں ناکام ہوگئیں جس میں ایک کوشش عدالت کے ذریعہ بھی تھی۔
چیف جسٹس کے اشارے کے مطابق بدھ کے روز شام تک بحث کو مکمل کرلیا جائے گا، جس کے بعدعدالت فیصلہ محفوظ کرلے گی اور تمام ججوں کو17نومبرتک فیصلہ سنانا پڑے گا،کیونکہ اسی تاریخ کو چیف جسٹس رنجن گگوئی بھی سبکدوش ہورہے ہیں، اگرکسی وجہ سے 17نومبر تک فیصلہ نہیں سنایا گیا تو پھر سے پورے کیس کی عدالتی کاروائی از سرنو شروع کرنی پڑ سکتی ہے۔
چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ ایودھیا کیس کی سماعت کر رہی ہے۔