سپریم کورٹ میں تینوں زرعی قوانین سے متعلق مفاد عامہ کی عرضیوں اور کسانوں کے احتجاج کے خلاف دائر متعدد درخواستوں پر سماعت جاری ہے، سپریم کورٹ کی تین رکنی بینچ اس معاملے کی سماعت کر رہی ہے۔
سپریم کورٹ نے احتجاج کا حل نہیں نکالنے پر شدید ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے مرکز سے سوال پوچھا کہ کسانوں سے کیا بات چیت ہو رہی ہے؟ اس دوران عدالت نے مرکز سے سوال کیا کہ کیا زرعی قوانین پر عمل آوری کو کچھ عرصے کے لیے روکا جا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ نے اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے مرکز کی مودی حکومت کو ایک کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دیا۔ جو ان تینوں نئے زرعی قوانین پر غور کرے گی۔ اور اس تعلق سے کسان رہنماؤں سے بات چیت بھی کرے گی۔
سماعت کے دوران حکومت کی جانب سے عدالت میں کہا گیا کہ فریقین کے مابین حال ہی میں بات چیت ہوئی ہے، اور یہ بات چیت مزید جاری رکھے جانے پر اتفاق ہوا ہے، تاہم چیف جسٹس نے اس پر برہمی کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت جس طرح معاملے کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اس سے ہم خوش نہیں ہیں، ہم نہیں جانتے کہ قانون پاس کرنے سے پہلے آپ نے کیا کیا؟ آخری سماعت میں بھی بات چیت کے بارے میں کہا گیا تھا، کیا ہو رہا ہے؟ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے زرعی قوانین کی شکایات پر غور کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کی بھی سفارش کی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا حکومت کی استدعا نہیں چلے گی کہ اسے کسی اور حکومت نے شروع کیا تھا، آپ کس طرح حل کر رہے ہیں؟ حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ 41 کسان تنظیمیں قانون واپس لینے کا مطالبہ کررہی ہیں، قوانین واپس نہیں لیے جانے کی صورت میں تحریک جاری رکھنے کی بات سامنے آ رہی ہیں۔ آخر یہ کب تک چلے گا؟
چیف جسٹس نے حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکومت کچھ نہیں کرتی ہے تو ہم ان قوانین پر پابندی لگادیں گے۔ سی جے آئی نے مزید کہا کہ اگر ضروری ہوا تو عدالت خود ان قوانین پر پابندی عائد کردے گی، سماعت کے دوران یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کسان تحریک کو جاری رکھنا چاہتے ہیں تو وہ پرامن طریقے سے جاری رکھ سکتے ہیں۔
خبر لکھے جانے تک سماعت جاری ہے، مزید تفصیلات کا انتظار ہے۔