شرومنی اکالی دَل (ایس اے ڈی) کی سینیئر رہنما اور فوڈ پروسیسنگ کی مرکزی وزیر ہرسمرت کور بادل نے کسانوں کے معاملے پر استعفی دے دیا ہے۔ جس کے بعد آج صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے ان کا استعفی قبول کرلیا۔
ہرسمرت کور بادل کے استعفی کے بعد سیاسی حلقوں میں بہت سی پیش آرائیں کی جارہی ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ طول پکڑ سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہریانہ، راجستھان اور پنجاب میں سیاسی بھونچال آسکتا ہے۔
ہرسمرت کور بادل نے استعفی کے بعد ٹویٹ کرکے کہا 'مجھے فخر ہے کہ میں کسانوں کے ساتھ ان کی بیٹی اور بہن کے طور پر کھڑی ہوں'۔
شرومنی اکالی دل (ایس اے ڈی) کے صدر سکھبیر سنگھ بادل کا کہنا ہے کہ ہماری پارٹی کسانوں کے ساتھ ہے اور ہم کسانوں کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہیں'۔
انھوں نے کہا ہے کہ 'آگے کی حکمت عملی پارٹی کے اعلی رہنماؤں سے تبادلہ خیال کے بعد طے کیا جائے گا۔ پارٹی کی کور کمیٹی جلد ہی اجلاس کرے گی۔ ہم ہر معاملے پر بات چیت کریں گے'۔
اس آرڈیننس کے خلاف کسانوں کے احتجاج نے ہریانہ میں دُشینت چوٹالہ کی جن نائک جنتا پارٹی (جے جے پی) کو اکالی دل کی طرح اس معاملے پر مضبوط مؤقف اختیار کرنے کے لئے مجبور کر دیا ہے۔
شرومنی اکالی دَل کے صدر سکھبیر سنگھ بادل سے پوچھا گیا کہ کیا آپ این ڈی اے سے اتحاد ختم کر دیں گے؟ اس کے جواب میں انہوں نے کہا ہے کہ 'ہم مرکزی حکومت کو کسانوں کے جذبات سے آگاہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جب مرکزی حکومت نے کسانوں کی شکایات کا ازالہ نہیں کیا اور کسان مخالف بل لے کر آئی تو ہم نے اس کی مخالفت کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم کسانوں کے ساتھ ہیں'۔
واضح رہے کہ پنجاب اور ہریانہ میں کسانوں کی بڑی تعداد مرکزی حکومت کے پاس کردہ آرڈیننس کے خلاف مسسلسل احتجاج کر رہی ہے۔
- مزید پڑھیں: ہرسمرت کور کا استعفی: این ڈی اے میں ٹوٹ کے آثار
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کسانوں کا یہ احتجاج پورے ملک میں ایک بڑی تحریک بن کر ابھر سکتا ہے۔ جس کا راست اثر مختلف ریاستوں کی اندرونی سیاست پر بھی پڑے گا۔
حالات و قرائن تو یہی بتا رہے ہیں کہ شرومنی اکالی دل کا یہ اقدام مرکزی حکومت کو بھاری پڑنے والا ہے۔ کیوںکہ این ڈی اے کی یہ سب سے پرانی اور مضبوط حلیف رہی ہے۔ ایسا بھی قیاس کیا جا رہا ہے کہ ایس اے ڈی بہت جلد مرکزی حکومت سے اپنی حمایت واپس لے لے گی۔
خیال رہے کہ یہ دوسری سیاسی جماعت ہے جو این ڈی اے سے اسی سال علیحدہ ہوئی ہے اس سے پہلے شیو سینا بھی اس سے علیحدہ ہوچکی ہے اور اس کا بھاری نقصان بھی بی جے پی کو اٹھانا پڑا ہے۔ بی جے پی کے ہاتھ سے مہاراشٹر جیسی بڑی ریاست نکل گئی۔