ETV Bharat / bharat

گلزار اردو شاعری کو نئی جہت دینے والے عظیم شاعر ونغمہ نگار

مشاعروں اور محفلوں سے ملی شہرت اور کامیابی نے موٹر میکینک کا کام کرنے والے گلزار کو گذشتہ چار دہائی میں فلمی دنیا کا ایک عظیم شاعر اور نغمہ نگار بنا دیا ہے۔

author img

By

Published : Aug 17, 2019, 2:54 PM IST

Updated : Sep 27, 2019, 7:12 AM IST

گلزار اردو شاعری کو نئی جہت دینے والے عظیم شاعر ونغمہ نگار

اردو شاعری کو ایک نئی جہت دینے والے بھارت کے معروف نغمہ نگار اور ہدایتکار گلزار پاکستان کے ضلع جہلم کے ایک چھوٹے سے قصبے دینہ میں کالرا اروڑہ سکھ خاندان میں 18 اگست 1936 کو پیدا ہوئے ۔

سمپورن سنگھ کالرا (گلزار) کو اسکول کے دنوں سے ہی شعر و شاعری اور موسیقی کا بے حد شوق تھا۔کالج کے دنوں میں ان کا یہ شوق روز وافزوں بڑھنے لگا اور وہ اکثر معروف ستار نواز روی شنکر اور سرود نواز علی اکبر خان کے پروگراموں میں جایا کرتے تھے۔

بھارت کی تقسیم کے بعد گلزار کا خاندان امرتسر میں بس گیا لیکن گلزار نے اپنے خواب کو پورا کرنے کے لیے ممبئی کا رخ کیا اور ورلی میں ایک گیرج میں کار مكینك کے طور پر کام کرنے لگے۔ فرصت کے لمحات میں وہ نظمیں لکھا کرتے تھے۔ اسی دوران وہ ڈائریکٹر بمل رائے کے رابطے میں آئے اور ان کے اسسٹنٹ بن گئے۔ بعد میں انہوں نے ڈائریکٹر رشی کیش مکھرجی اور ہیمنت کمار کے اسسٹنٹ کے طور پر بھی کام کیا۔

گلزار اردو شاعری کو نئی جہت دینے والے عظیم شاعر ونغمہ نگار
گلزار اردو شاعری کو نئی جہت دینے والے عظیم شاعر ونغمہ نگار

اس کے بعد شاعر کے طور پر گلزار پروگریسو رائٹرس ایسوسی ایشن (پی ڈبلیو اے ) سے منسلک ہوگئے۔ انہوں نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز 1961 میں بمل رائے کے اسسٹنٹ کے طور پر کیا۔

نغمہ نگار کے طور پر گلزار نے اپنا پہلا نغمہ 'میرا گورا انگ لئی لے' 1963 میں ریلیز بمل رائے کی فلم بندنی کے لیے لکھا۔

گلزار نے بطور شاعر بے شمار فلموں میں نغمے لکھے ان کی فلمی شاعری میں ایک اچھوتا پن پایا جاتا ہے۔ شاعری میں تشبیہات کا استعمال ان کے نغموں کو منفرد بناتا ہے۔

گلزار اردو شاعری کو نئی جہت دینے والے عظیم شاعر ونغمہ نگار
گلزار اردو شاعری کو نئی جہت دینے والے عظیم شاعر ونغمہ نگار

انہوں نے 1971 میں فلم 'میرے اپنے'کے ذریعے ہدایتکاری کے میدان میں بھی قدم رکھا۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد کوشش، پریچے، اچانک، خوشبو، آندھی، موسم، کنارا، کتاب، نمکین، انگور، اجازت،لباس ، لیکن، ماچس اور ہو تو تو جیسی کئی فلموں کی ہدایتکاری کی۔

اپنے ابتدائی دنوں میں گلزار کارجحان بائیں بازو نظریات کی جانب تھا جو 'میرے اپنے اور آندھی' جیسی فلموں میں ظاہر ہوتا ہے۔ آندھی میں بھارتی سیاسی نظام پر بالواسطہ تنقید کی گئی تھی حالانکہ اس فلم پر کچھ وقت کے لئے پابندی بھی لگا دی گئی تھی۔

گلزار ادبی کہانیوں اور خیالات کو فلموں میں بخوبی پیش کرتے ہیں۔ ان کی فلم انگور شیکسپیئر کی کہانی 'كامیڈی آف ایررس' فلم موسم اے جے كروننس کے 'جوڈاس ٹری' اور فلم پریچے 'ہالی وڈ کی کلاسک فلم 'دی ساؤنڈ آف میوزک'پر مبنی تھی۔

گلزار اردو شاعری کو نئی جہت دینے والے عظیم شاعر ونغمہ نگار
گلزار اردو شاعری کو نئی جہت دینے والے عظیم شاعر ونغمہ نگار

راہل دیو برمن کی موسیقی میں بطور نغمہ نگار گلزار کی صلاحیت نكھر کر سامنے آئی اور انہوں نے ناظرین اور سامعین کومسافر ہوں یارو (پریچے)، تیرے بغیر زندگی سے کوئی شکوہ تو نہیں (آندھی)، گھر جائے گی (خوشبو)، میرا کچھ سامان (اجازت)،تجھ سے ناراض نہیں زندگی(معصوم)جیسے ادبی طرز کے نغمات دیئے۔ سنجیو کمار، جتیندر اور جیا بہادری کی اداکاری کو نکھارنے میں گلزار نے اہم کردار نبھایا تھا۔

ہدایت کے علاوہ گلزار نے کئی فلموں کی اسکرپٹ اور ڈائیلاگ بھی لکھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے 1977 میں کتاب اور کنارا جیسی فلموں کی تخلیق بھی كی۔ اپنے نغموں کے لیے وہ اب تک 11 مرتبہ فلم فیئرایوارڈ اور تین مرتبہ قومی ایوارڈسے نوازے جا چکے ہیں۔

سنہ 2009 میں فلم 'سلم ڈاگ ملینیئر'میں ان کا نغمہ 'جے ہو'کو آسكر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بھارتی سنیما میں ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے 2004 میں انہیں ملک کے تیسرے بڑے شہری اعزاز پدم بھوشن سے سرفراز کیا گیا۔

اردو زبان میں گلزار کی مختصر کہانیوں کا مجموعہ 'دھواں' کو 2002 میں ساہیتہ اکیڈمی ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔

گلزار نے اپنی شاعری کو ایک نئے انداز میں پیش کیا جسے تروینی کہا جاتا ہے۔بھارتی فلمی دنیا میں قابل ذکر شراکت کو دیکھتے ہوئے گلزار فلم انڈسٹری کے اعلی ترین اعزاز دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے بھی نوازے جا چکے ہیں۔

اردو شاعری کو ایک نئی جہت دینے والے بھارت کے معروف نغمہ نگار اور ہدایتکار گلزار پاکستان کے ضلع جہلم کے ایک چھوٹے سے قصبے دینہ میں کالرا اروڑہ سکھ خاندان میں 18 اگست 1936 کو پیدا ہوئے ۔

سمپورن سنگھ کالرا (گلزار) کو اسکول کے دنوں سے ہی شعر و شاعری اور موسیقی کا بے حد شوق تھا۔کالج کے دنوں میں ان کا یہ شوق روز وافزوں بڑھنے لگا اور وہ اکثر معروف ستار نواز روی شنکر اور سرود نواز علی اکبر خان کے پروگراموں میں جایا کرتے تھے۔

بھارت کی تقسیم کے بعد گلزار کا خاندان امرتسر میں بس گیا لیکن گلزار نے اپنے خواب کو پورا کرنے کے لیے ممبئی کا رخ کیا اور ورلی میں ایک گیرج میں کار مكینك کے طور پر کام کرنے لگے۔ فرصت کے لمحات میں وہ نظمیں لکھا کرتے تھے۔ اسی دوران وہ ڈائریکٹر بمل رائے کے رابطے میں آئے اور ان کے اسسٹنٹ بن گئے۔ بعد میں انہوں نے ڈائریکٹر رشی کیش مکھرجی اور ہیمنت کمار کے اسسٹنٹ کے طور پر بھی کام کیا۔

گلزار اردو شاعری کو نئی جہت دینے والے عظیم شاعر ونغمہ نگار
گلزار اردو شاعری کو نئی جہت دینے والے عظیم شاعر ونغمہ نگار

اس کے بعد شاعر کے طور پر گلزار پروگریسو رائٹرس ایسوسی ایشن (پی ڈبلیو اے ) سے منسلک ہوگئے۔ انہوں نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز 1961 میں بمل رائے کے اسسٹنٹ کے طور پر کیا۔

نغمہ نگار کے طور پر گلزار نے اپنا پہلا نغمہ 'میرا گورا انگ لئی لے' 1963 میں ریلیز بمل رائے کی فلم بندنی کے لیے لکھا۔

گلزار نے بطور شاعر بے شمار فلموں میں نغمے لکھے ان کی فلمی شاعری میں ایک اچھوتا پن پایا جاتا ہے۔ شاعری میں تشبیہات کا استعمال ان کے نغموں کو منفرد بناتا ہے۔

گلزار اردو شاعری کو نئی جہت دینے والے عظیم شاعر ونغمہ نگار
گلزار اردو شاعری کو نئی جہت دینے والے عظیم شاعر ونغمہ نگار

انہوں نے 1971 میں فلم 'میرے اپنے'کے ذریعے ہدایتکاری کے میدان میں بھی قدم رکھا۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد کوشش، پریچے، اچانک، خوشبو، آندھی، موسم، کنارا، کتاب، نمکین، انگور، اجازت،لباس ، لیکن، ماچس اور ہو تو تو جیسی کئی فلموں کی ہدایتکاری کی۔

اپنے ابتدائی دنوں میں گلزار کارجحان بائیں بازو نظریات کی جانب تھا جو 'میرے اپنے اور آندھی' جیسی فلموں میں ظاہر ہوتا ہے۔ آندھی میں بھارتی سیاسی نظام پر بالواسطہ تنقید کی گئی تھی حالانکہ اس فلم پر کچھ وقت کے لئے پابندی بھی لگا دی گئی تھی۔

گلزار ادبی کہانیوں اور خیالات کو فلموں میں بخوبی پیش کرتے ہیں۔ ان کی فلم انگور شیکسپیئر کی کہانی 'كامیڈی آف ایررس' فلم موسم اے جے كروننس کے 'جوڈاس ٹری' اور فلم پریچے 'ہالی وڈ کی کلاسک فلم 'دی ساؤنڈ آف میوزک'پر مبنی تھی۔

گلزار اردو شاعری کو نئی جہت دینے والے عظیم شاعر ونغمہ نگار
گلزار اردو شاعری کو نئی جہت دینے والے عظیم شاعر ونغمہ نگار

راہل دیو برمن کی موسیقی میں بطور نغمہ نگار گلزار کی صلاحیت نكھر کر سامنے آئی اور انہوں نے ناظرین اور سامعین کومسافر ہوں یارو (پریچے)، تیرے بغیر زندگی سے کوئی شکوہ تو نہیں (آندھی)، گھر جائے گی (خوشبو)، میرا کچھ سامان (اجازت)،تجھ سے ناراض نہیں زندگی(معصوم)جیسے ادبی طرز کے نغمات دیئے۔ سنجیو کمار، جتیندر اور جیا بہادری کی اداکاری کو نکھارنے میں گلزار نے اہم کردار نبھایا تھا۔

ہدایت کے علاوہ گلزار نے کئی فلموں کی اسکرپٹ اور ڈائیلاگ بھی لکھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے 1977 میں کتاب اور کنارا جیسی فلموں کی تخلیق بھی كی۔ اپنے نغموں کے لیے وہ اب تک 11 مرتبہ فلم فیئرایوارڈ اور تین مرتبہ قومی ایوارڈسے نوازے جا چکے ہیں۔

سنہ 2009 میں فلم 'سلم ڈاگ ملینیئر'میں ان کا نغمہ 'جے ہو'کو آسكر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بھارتی سنیما میں ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے 2004 میں انہیں ملک کے تیسرے بڑے شہری اعزاز پدم بھوشن سے سرفراز کیا گیا۔

اردو زبان میں گلزار کی مختصر کہانیوں کا مجموعہ 'دھواں' کو 2002 میں ساہیتہ اکیڈمی ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔

گلزار نے اپنی شاعری کو ایک نئے انداز میں پیش کیا جسے تروینی کہا جاتا ہے۔بھارتی فلمی دنیا میں قابل ذکر شراکت کو دیکھتے ہوئے گلزار فلم انڈسٹری کے اعلی ترین اعزاز دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے بھی نوازے جا چکے ہیں۔

Intro:Body:

News ID


Conclusion:
Last Updated : Sep 27, 2019, 7:12 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.