ان کا جرم محض اتنا تھا کہ انہوں نے وزیراعظم نریندرمودی کو خط لکھ کر ملک میں ہونے والے منفی واقعات پر ان کی توجہ مبذول کرائی تھی۔
ان طلبہ کے اخراج کے حکم میں یونیورسٹی نے انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا حوالہ دیا ہے۔ یونیورسٹی کے اخراج کے اس حکم کے خلاف کانگریس پارٹی کے ایک وفد نے ریاست کے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کرکے یونیورسیٹی انتظامیہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
اس ضمن سچن ساونت نے کہا کہ برسراقتدار حکومت گزشتہ پانچ برس سے ملک گیر سطح پر منووادی نظریات کو نافذ کرنے کی اور آر ایس ایس کے نظریات پر عمل کرنے کی جانب گامزن ہے۔ اس کے لیے قصداً یونیورسٹی کوٹارگیٹ کرکے بہوجن سماج کے طلبہ کونشانہ بنایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چا ہے روہت ویمولہ کا کیس ہو، چاہے آئی آئی ٹی مدراس کا واقعہ ہو، چا ہے دہلی یونیورسٹی کامعاملہ ہو یا پھر جواہر لال یونیورسٹی کا معاملہ ہو، ان سب کے پسِ پشت ایک ہی نظریہ کارفرما ہے اور اس کا مقصد بہوجن سماج کے طلبہ کی آوازوں کوخاموش کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وردھا میں مہاتماگاندھی ہندی یونیورسٹی کے طلبہ کا کسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں، مختلف نظریات کے طلبہ کانشی رام کی یومِ پیدائش کے موقع پر وزیراعظم نریندرمودی کوخط لکھ کر ملک میں ہونے والے جرائم ومنفی واقعات پر ان کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی تھی۔
سچن ساونت نے کہا کہ اس سے قبل ملک کے 49 دانشوروں اور فنکاروں نے نریندرمودی کو خط لکھ کر ماب لنچنگ وغیرہ جیسے منفی واقعات پر اپنا غصہ ظاہر کیا تھا،جس پر ان کے خلاف ملک سے غداری کا مقدمہ درج کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ چا ہے ان دانشوران پر ملک سے غداری کا مقدمہ ہو، چاہے چنمیانند وکلدیپ سنگھ سینگر کا عورتوں کے ساتھ عصمت دری کا کیس ہو، چا ہے کشمیر میں گزشتہ دوماہ سے ابلاغ وترسیل پر پابندی کا معاملہ ہو یا پھر ماب لنچنگ جیسے واقعات ہوں، ان کے خلاف اجتماعی طور پر کئی طلبہ وزیراعظم نریندرمودی کو خط لکھ چکے ہیں۔
لیکن یونیورسٹی انتظامیہ کو یہ پسند نہیں آیا اور انہوں نے حکومت کی مرضی کو فوقیت دیتے ہوئے چھ طلبہ کو ان کے سماجی بیک گراونڈ کودیکھتے ہوئے ان پر اخراج کی کارروائی کی جو قابل مذمت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اس اخراج کے خلاف ریاست کے الیکشن کمشنر سے ملاقات کی ہے اور یونیوسٹی انتظامیہ کی اس غیرقانونی وغیر اخلاقی حرکت کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔