ان جھیلوں کا استعمال نہ صرف ضروریات زندگی بلکہ پینے کے پانی کے لیے بھی کیا جاتا تھا۔
موجودہ وقت میں حکومت اور عوام کی عدم توجہی کے سبب تالاب یا تو خشک ہو چکے ہیں یا نالے یا گندے پانی کے جمع ہونے کی جگہ میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جن پر بلڈنگ مافیائیوں نے عمارتیں کھڑی کر لی ہیں۔
شہر کے درمیان اور اطراف و اکناف میں واقع یہ گڈھے نما تالاب اور جھیل اب نہ صرف جانوروں بلکہ انسانوں کے لیے مضر ثابت ہو رہے ہیں۔
ملک کی دیگر ندیوں کی طرح اس شہر کی تاریخی موسی ندی اور حسین ساگر تالاب بھی آلودگی کے شکار ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق جھیلوں میں سوڈیم لاریل سلفیٹ کی مقدار معمول سے 24 گنا زیادہ پائی گئی ہے۔
البتہ ماہرین کی رائے کچھ اور ہے۔
اگر بر وقت کچھ اقدامات نہیں کیے گئے تو یہاں کے لوگ نت نئی بیماریوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔